احکامِ تجارت

* مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

کسی کی کتاب اس کی اجازت کے بغیر چھاپنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض کتب جیسے میڈیکل ، قانون ، انجینئرنگ وغیرہ کی کتابوں پر لکھا ہوتا ہے کاپی رائٹ جملہ حقوق محفوظ ہیں ، نہ اس کو چھاپ سکتے ہیں نہ فوٹی کاپی کرسکتے ہیں۔ بعض لوگ ان کتب کی کاپپز کرواکر بیچتے ہیں اور لوگ ان کاپیز کو خرید کر پڑھتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : قانون ، پبلشنگ اداروں اور مصنفین کو بہت سارے حقوق دیتا ہے اور اس طرح کے جو معروف حقوق ہیں یہ شریعت کی تعلیمات کے مخالف بھی نہیں ہیں۔ شرعی تقاضے کی روشنی میں بھی اب ایسے قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے جس کی رو سے ایک مکتبہ کی کتاب کو دوسرا شائع نہیں کرسکتا یونہیں مصنف کی اجازت کے بغیر بھی اشاعت نہیں ہوسکتی یہ قوانین ہمارے ملک میں بھی رائج ہیں ان پر عمل کرنا شرعاً واجب ہے۔ البتہ بہت سارے ادارے ایسے ہوتے ہیں جو یہ حقوق عام کر دیتے ہیں کہ کوئی بھی اشاعت کر سکتا ہے ان کی طرف سے اجازت ہوتی ہے یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ادارہ ملکی سطح پر رجسٹرڈ ہی نہیں ہے جس کی بنا پر ملکی قانون اس کی اشاعت سے نہیں روکتا تو اس کا معاملہ جدا ہوگا۔ رہی بات فوٹو کاپی کی تو اس بارے میں قانون کیا کہتا ہے یہ دیکھنا ضروری ہے۔ عام طور پر تو طلباء کتاب نہ ملنے پر مکمل کتاب یا کچھ ابواب کی فوٹو کاپی کرواتے ہیں اور فوٹو کاپی پر کوئی قانونی باز پرس بھی ہوئی ہو ایسی کوئی بات علم میں نہیں آئی۔ قانون اگر اس سے بھی روکتا ہے تو اس پر عمل بھی ضروری ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

انشورنس کی رقم ادا کرنے کی شرط پر قرض کا لین دین کرنا

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد صاحب ایک ادارے میں جاب کرتے ہیں وہ ادارہ ملازمین کو اس شرط پر قرض دیتا ہے کہ قرض کے ساتھ اضافی رقم واپس کرنی ہوگی ، البتہ یہ اضافی رقم ادارہ خود استعمال نہیں کرے گا بلکہ یہ رقم اس لیے وصول کی جائے گی تاکہ قرض میں دی گئی رقم کا انشورنس کروا لیا جائے اور انشورنس پالیسی کی قسطیں اس اضافی رقم سے اداکی جاسکیں ، یہ انشورنس ادارہ خود کروائے گا۔ برائے کرم یہ رہنمائی فرمادیں کہ اس شرط پر قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : پوچھی گئی صورت میں قرض دار سے انشورنس کی رقم وصول کرنے کی شرط کے ساتھ قرض کا لین دین ناجائز و حرام ہے کیونکہ قرض پر مشروط نفع کسی بھی نام سے لیا جائے ، یہ نفع سود ہوتا ہے اور سود حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

نیز یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہے کہ انشورنس کروانا خواہ وہ انشورنس جان کی ہو یا مال کی ، بہرصورت یہ بھی ناجائز و گناہ ہے ، لہٰذا ادارے کو چاہیے کہ انشورنس اور کسی نفع کے بغیرہی قرض کا لین دین کرے۔

صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ تعالیٰ علیہ  لکھتے ہیں : “ قرض دیا اور ٹھہرالیا کہ جتنا دیا ہے اُس سے زیادہ لے گا جیسا کہ آج کل سود خواروں کا قاعدہ ہے کہ روپیہ دو روپے سیکڑا ماہوار سود ٹھہرا لیتے ہیں یہ حرام ہے۔ یوہیں کسی قسم کے نفع کی شرط کرے ناجائز ہے مثلاً یہ شرط کہ مستقرض ، مقرض سے کوئی چیز زیادہ داموں میں خریدے گا۔ “ (بہارشریعت ، 2 / 759)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

واپسی کی شرط پر مال خریدنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر ہم کپڑے کا کام اس طرح کریں کہ دکاندار سے ریٹ طے کرکے مال اٹھالیں لیکن پیسے ہم اس کو تب دیں گے جب وہ مال بک جائے گا؟ اسی طرح کیا ہم دکاندار سے یہ طے کر سکتے ہیں کہ اگر مال بچ گیا تو ہم اس کو واپس کریں گے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : یہ شرط لگانا کہ جب مال فروخت ہو جائے گا تب پیسے دیں گے یہ شرط درست نہیں ایسی شرط سودے کو ناجائز اور آمدنی کو غیر شرعی بنا دیتی ہے۔ آپ سیزن کےا عتبار سے دیکھ لیں کہ اس سیزن میں کتنے مہینے لگیں گے اس کے حساب سے ادائیگی کی ایک مدت مقرر کرلیں مثلاً آپ کو اندازہ ہے کہ رمضان یا عید کے سیزن میں یہ مال فروخت ہونے میں تین مہینے لگیں گے تو آپ اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے تین کے بجائے بے شک چار ماہ مقرر کرلیں کہ میں چار مہینے میں اس کی ادائیگی کردوں گا۔ ایسا کرنے سے ادھار سودے میں رقم کی ادائیگی میں کوئی ابہام باقی نہیں رہے گا۔

یہ ضروری ہے کہ ادھار مال بیچنے والا اور خریدنے والا معاوضہ کی ادائیگی کی مدت پر لازمی طور پر اتفاق کریں۔

اسی طرح دوسری صورت یہ کہ اگر مال فروخت نہ ہوا تو واپس کردوں گا سودے میں ایسی شرط لگانا بھی درست نہیں۔ ہاں اگر خیارِ شرط کی صورت ہو تو اس میں تین دن تک واپسی کا اختیار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی شرط نہیں لگاسکتے کیونکہ خرید و فروخت سے ملکیت تبدیل ہوجاتی ہے جب آپ نے ایک چیز خریدلی اس پر قبضہ کرلیا تو وہ چیز آپ کے ضمان میں آگئی اب وہ ضائع ہوجائے تو آپ کی ضائع ہوگی ، بیچنے والے کا اس سے اب کوئی تعلق نہیں وہ آپ سے اس کی رقم کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ مال سے اب وہ غیر متعلق ہو جاتا ہے۔  خیارِ شرط کے علاوہ کسی صورت میں اس کا مال واپس لینے سے انکار درست ہے ۔

ہاں اگر دکاندار اپنی مرضی سے ایک آپشن دیتا ہے کہ میں نے بیچ دیا ہے میں اس سے لا تعلق ہوں ہاں اگر کبھی نہ بکے تو لے آئیے گا ہم دیکھ لیں گے واپس لے لیں گے۔ یوں اگر وہ دکاندار اپنی مرضی سے بغیر جبر بغیر زبردستی کے واپس لے لیتا ہے تو لے سکتا ہے اور وہ اسی قیمت پر واپس لے گا جس پر بیچی تھی۔ البتہ اگر وہ دوبارہ ان سے نئے سرے سے خریدتا ہے تو خریدنے میں بارگیننگ ہوسکتی ہے۔

یعنی سودا ختم ہوا ہے تو اسی قیمت پر ہوگا اور اگر نیا سودا ہوا ہے تو وہ نئی قیمت پر ہوسکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اپنے اکاؤنٹ سے کسی کی پیمنٹ کرکے اس سے زائد رقم لینا

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر اپنے اکاؤنٹ سے کسی کی پیمنٹ کریں اور اس سے اس پر اضافی رقم لیں تو کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : کرنسی کے لین دین میں بہت باریکیاں ہیں ایسے سودے میں بہت سی صورتوں میں سود پایا جاسکتا ہے ۔

جیسے ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں لہٰذا تم ابھی میری طرف سے ادائیگی کردو میں تمہیں دو دن بعد دے دوں گا اور جتنی رقم ادا کرنی ہے اس پر مزید اضافی رقم بھی دوں گا تو یہاں حقیقت میں ایک شخص نے دوسرے کو قرضہ دیا ہے اور قرضہ دینے والا قرضہ پر مشروط اضافی رقم لے رہا ہے لہٰذا یہ سود ہے۔

پوچھی گئی صورت میں اگر یہی صورت پائی جا رہی ہے تو یہ واضح سود ہے۔ البتہ اگر مراد یہ ہے کہ جتنی رقم اس نے دی ہے اس پر کوئی اضافی رقم وہ نہیں لے رہا لیکن جو رقم ٹرانسفر کرنے کا خرچہ آرہا ہے وہ وصول کرے گا تو یہ سود کی صورت نہیں ہے جتنا خرچہ رقم ٹرانسفر کرنے پر آیا ہے وہ وصول کر سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہل سنت ، دار الافتاء اہل سنت نور العرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code