Book Name:Bap Aulad Ki Tarbiyat Kesay Karay
گئے، چھوٹے بڑے کالحاظ ختم ہوچکاہے،رشتہ داروں ،ہمسایوں،عام مسلمانوں حتّٰی کہ ماں باپ کے حقوق بھی پامال ہورہے،جس بیٹےکے مستقبل کو روشن بنانے کیلئے باپ نے بے دریغ پیسہ لگایا،آج وہی بیٹا باپ کےریٹائر ہونے کے بعد اسے بیکار اور فالتوسمجھتاہے،باپ کی ذرا ذراسی بات اسے انتہائی بُری معلوم ہوتی ہے،بعض اوقات یہ بگڑی اولاد، اس بوڑھے باپ کواپنے ساتھ رکھنا گوارہ نہیں کرتی اور اسے’’اَولڈ ہاؤس‘‘کےسپرد کردیتی ہےجہاں وہ گھربار سے دُورسِسَک سِسَک کر جیتا اوربالآخر دم توڑ جاتا ہے۔اور اگر باپ امیر وکبیر ہواور بڑھاپے کو پہنچ جائے تویہی جوان اولادباپ کی جائیداد اپنے نام کروانےکیلئے اپنے باپ سےلڑتی جھگڑتی، گالیاں دیتی اوربعض اوقات توظلم کی حدود پار کرکے صرف پیسوں یاجائیداد کی خاطراپنےماں باپ کا خون کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی، اس کی ایک بہت بڑی وجہ اولاد کو اسلامی طریقے کے مطابق مدنی تربیّت نہ دینا بھی ہے۔آئیے اسی ضِمن میں ایک عبرت ناک واقعہ سنتے ہیں،چنانچہ
ایک تاجر حُصُولِ معاش کی خاطر گھر بار اوربیوی بچوں کو چھوڑ کر بیرونِ ملک چلا گیا، دولت کماکما کر گھر بھیجتا رہا، اچانک ایک دن اسے اطلاع ملی کہ اس کی بیوی کاانتقال ہوگیاہے،وہ جلدی سے وطن پہنچا،معلوم کرنے پر اسے پتا چلا کہ اس کی بیوی کاقاتل خود اس کا بیٹا ہی ہے ، وہ لڑکا اس تاجر کا اِکْلوتا بیٹا تھا، بے جا لاڈ پیار اور دولت کی ریل پیل نے اس کی عادتیں بگاڑ دِیں تھیں، حتّٰی کہ بُرے دوستوں کی صحبت میں رہ کر نشے کاعادی بن گیا۔جب اس کی ماں کو اپنے اکلوتے بیٹے کی ان حرکتوں کاپتا چلاتواس نے پیسے دینے بند کر دئیے، ضد کرنے پر بھی جب پیسے نہ ملے تو بیٹے نے طیش میں آ کر خنجر کے پے در پے