Book Name:Bap Aulad Ki Tarbiyat Kesay Karay
کی بات ماننی ہی پڑتی ہے، جب بچے کا یہ ذِہْن بن جاتاہے کہ’’جو روتاہےاس کا کام ہوتاہے‘‘تو پھرآئے دن رو پِیٹ کر نِت نئی فرمائشیں پوری کروانا ان کا معمول بن جاتاہےاوراس طرح یہ سلسلہ تھمنے کے بجائے مزید بڑھتاہی چلاجاتا ہے۔لہٰذا اس کاحل یہی ہے کہ بچوں کی بے جاضدکے آگے خودکوبے بس سمجھ کران کی ہربات اور مُطالبات کو پورا کرنے سے گریز کیجئے، ورنہ یہ لاڈ پیار ان کے بگاڑکاسبب بن سکتاہے۔
اسی طرح باپ کی ایک ذِمّہ داری یہ بھی ہے کہ اپنی اولادپرکڑی نظر رکھے کہ اس کا اُٹھنابیٹھناکن لوگوں کے ساتھ ہے،لیکن فی زمانہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے اور بعض کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ہمارے گھر کا ماحول سُلجھا ہواہے،ہم نے اپنے بچے کی اچھی تربیت کی ہے،ہمیں یقین ہے وہ کسی غلط راستے پر نہیں جاسکتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کےگھر کا ماحول اچھا ہومگرآپ کا بچہ جس اسکول یا کالج میں جاتاہے،یا گلی محلے کے دوستوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتاہے،ان میں ہر طرح کے اچھے بُرے لوگ ہوتے ہیں، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اسے وہاں بھی گھرجیسا ہی ماحول میسرہوگا۔لیکن باپ اسی خوش فہمی میں مبتلا رہتاہے کہ میرابچہ بہت شریف ہے اوربچہ بُرے دوستوں کی صحبت میں پھنس کرجرائم کی دنیا میں غرق ہوجاتاہے اور باپ کواس وَقْت ہوش آتاہے جب اس کا ہونہار بیٹا منشیات یا فحاشی کے اڈّوں سے گرفتار ہوکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلاجاتاہے۔لہٰذا باپ کی ذمہ داری صرف یہی نہیں کہ پیسہ بنانے کی مشین بن کرخوب دولت اکٹھی کرے اور اپنی اولاد کو اچھے سےاچھا کھلائے پلائے اور دنیا کی ہر آسائش وسہولت انہیں مُہیا کرنے کی کوشش کرے بلکہ ان کی اچھی پرورش کے ساتھ ساتھ انہیں دینی تعلیم