Book Name:Bap Aulad Ki Tarbiyat Kesay Karay
سُنَّت کے مطابِق ابتدا ہی سے اولاد کی اچھی تربیَّت کریں،جس طرح ان کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے مختلف حفاظتی تدابیر اختیارکی جاتی ہیں،گندگی والی جگہ سے بچایا جاتا ہے کہ کہیں کوئی بیماری نہ لگ جائے،اسی طرح انہیں بُرے ماحول کی آلودگیوں سے بچا کر اچھی صحبت فراہم کریں،ان کی اصلاح ومدنی تربیت میں جورُکاوٹیں ہوں ،انہیں دُورکریں اور انہیں اچھے اَخلاق وآداب سکھائیں۔
نبیِ کریم،رؤف و رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َ نے ارشادفرمایا:’’اپنی اولاد کے ساتھ نیک سُلُوک کرو اورانہیں اچھے ادب سِکھانے کی کوشِش کرو۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب بر الوالد والاحسان الی البنات، ۴/۱۸۹-۱۹۰، الحدیث: ۳۶۷۱)اسی طرح ایک اور حدیث ِپاک میں ہے: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطّیہ نہیں دیا، جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الولد، ۳/۳۸۳، الحدیث: ۱۹۵۹)
حکیم الاُمّت، حضرت مفتی احمدیار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اچھے ادب سے مُراد بچے کو دِیندار،مُتّقی،پرہیزگار بنانا ہے۔اولاد کے لئے اس سے اچھا عطیہ کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دِیْن و دنیا میں کام آتی ہے ۔ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کوصرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں،اِنہیں دِیندار بنا کر جائیں جو خود انہیں بھی قبر میں کام آئے کہ زندہ اولاد کی نیکیوں کا ثواب مُردہ کوقبر میں ملتا ہے۔
(مراٰۃ المناجیح، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، الفصل الثانی، ۶/۵۶۵، تحت الحدیث)
یقیناً نیک اولادوالدین کے مرنے کے بعد بھی کام آتی ہے،جی ہاں!چنانچہ فرمانِ مصطفے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے :جب آدَمی کا اِنتقال ہوجاتا ہے تو تین(3) اعمال کے علاوہ اس کے تمام اعمال مُنقطِع ہو جاتے ہیں: (۱)صدقۂ جاریہ (۲)ایسا علم جس سے نفع اُٹھایاجائے اور (۳)نیک اولاد جو اس کے لئے دُعا