Book Name:Ghazwa e Badar Say Hum Nay Kia Seekha
چھوڑا ، اپنا گھر بار قربان کیا ) اب جانیں بھی قربان کریں گے۔ اب پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے اَنْصار کی طرف رُخ فرمایا ، حضرت سعد بن عُبَادہ رَضِیَ اللہ عنہ کھڑے ہوئے ، عرض کیا : یَارسولَ اللہ صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! شاید آپ ہم سے رائے لینا چاہتے ہیں۔ اے اللہ پاک کے آخری نبی صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! میدانِ بدر تو یہ رہا ، آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں بھی اُترنے کو تیار ہیں۔ دوسرے صحابی رَضِیَ اللہ عنہ کھڑے ہوئے ، عرض کیا : یَارسولَ اللہ صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! ہم بنی اسرائیل جیسے نہیں کہ انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام سے کہا تھا :
فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴) ( پارہ : 6 ، سورۂ مائدہ : 24 )
ترجمہ کَنْزُ الایمان : تو آپ جائیے اور آپ کا رَبّ تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں ۔
یَارسولَ اللہ صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! ہم آ پ پر اپنی جانیں نثار کریں گے۔ ( [1] )
یہ جذبۂ اطاعت جو صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے اند ر تھا ، اَصْل میں یہی جذبہ تھا جو 313 کو میدانِ بدر میں لے بھی گیا تھا اور فتح سے مُشَرَّف بھی کر دیا۔ ایک شاعر نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ میدانِ بدر میں صحابہ کرام کے پاس تلواریں بھی پوری نہ تھیں ، جنگی سامان بھی کم تھا ، افرادی قُوَّت بھی کم تھی ، اس کے باوُجُود وہ میدانِ بدر میں کیوں چلے گئے ؟ کس بھروسے پر میدان میں اُترے۔ تو شاعِر نے کہا :
تھے ان کے پاس دو گھوڑے ، چھ زرہیں ، آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دُنیا بھر کی تقدیریں