Book Name:اِنَّا لِلّٰہ Parhnay Ki Barkatein
گے صبر کرنے اور اِنَّا لِلّٰہ پڑھنے کے ثواب سے جو مَحْرُومی ہوگی، وہ تو ہو گی، الٹا بدشگونی لینے کا گُنَاہ الگ ہو گا کہ بدشگونی لینا حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔
بدشگونی کے بارے میں 4فرامینِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم
*ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ وَ لَا تُطَیَّرُ لَہٗ جس نے بدشگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔([1]) *ہمارے نبی،سچے نبی،اچھے نبی، آخری نبی، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: جس نے کہانت کی یا جو تیروں کے ذریعے فال نکالے یا جو بدشگونی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے وہ شخص کبھی بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا۔([2]) *رسولِ بےمثال، بی بی آمنہ کے لال صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وسَلَّم نے 3 بار فرمایا: اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ، اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ، اَلطِّیَرَۃُ شِرْکٌ بدفالی لینا شرک ہے، بدفالی لینا شرک ہے، بدفالی لینا شرک ہے، پھر فرمایا: ہم میں سے ہر شخص کو ایسا (یعنی بدشگونی جیسا) خیال آجاتا ہے مگر اللہ پاک تَوَکُّل کے ذریعے اس خیال کو دُور فرمادیتا ہے۔([3])
اس حدیثِ پاک کے تحت عُلَمائے کرام فرماتے ہیں: زمانۂ جاہلیت میں لوگ بدفالی لیا کرتے تھے، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی کے تقاضے پر عمل کرنے سے ان کو نفع(Benefit) حاصِل ہوتا ہے مثال کے طور پر کوئی شخص کام کے لئے نکلا اور راستے میں بلّی نے اس کا راستہ کاٹ لیا، اب اگر یہ واپس لوٹ آیا تو زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح