Book Name:Yateemon Ke Wali
اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى۪(۶) (پارہ:30، الضحیٰ:6)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان: کیا اس نے تمہیں یتیم نہ پایا پھر جگہ دی۔
اس جگہ لفظِ یتیم کے 2معنیٰ ہو سکتے ہیں اور ان دونوں معنیٰ کے لحاظ سے پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی بہت پیاری پیاری شانیں ظاہِر ہوتی ہیں:
لفظِ یتیم کا پہلا معنیٰ اور اس کی وضاحت
لفظِ یتیم کا پہلا معنیٰ یہ ہے کہ وہ بچہ جس کی ولادت سے پہلے یا بعد میں اُس کا والِد انتقال کر جائے، اُسے یتیم کہتےہیں۔([1])
روایات میں ہے: ہمارے آقا و مولیٰ،مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ابھی ظاہِری دُنیا میں تشریف فرما نہیں ہوئے تھے، سیدہ آمنہ رَضِیَ اللہ عنہا کے پاس امانت تھے، جب آپ کے والِدِ محترم سیدنا عبد اللہ رَضِیَ اللہ عنہ تجارت کے لئے مُلْکِ شام کی طرف روانہ ہوئے، واپسی پر مدینہ منوَّرہ پہنچے، یہاں آ کر کچھ دِن بیمار رہے، پِھر اللہ پاک کو پیارے ہو گئے۔([2]) چونکہ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے والِدِ محترم آپ کی وِلادت شریف سے پہلے ہی رُخصت ہو گئے تھے، اس لئے مکّے کے بعض لوگ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کو یَتِیْمُ عَبْدِ اللہ کہتے تھے۔
اہم وضاحت:یہاں ایک بات بطور خاص ذہن میں رکھیئے کہ علمائے کرام نے پیارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کو یتیم کہنے سے منع فرمایا ہے، اِس کی جگہ آپ کو دُرِّ یتیم کہنا چاہئے، دُرِّ یتیم کا معنیٰ ہے: بے مثال موتی۔