Book Name:Do Jahan Ki Naimatain
عرض کیا۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ عنہ سُن کر گھبرا گئے (کہ اتنا سارا کھانا تو گھر پر موجود نہیں ہے)۔ اَمِّی جان سے کہنے لگے: اب کیا بنے گا؟ انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا: اللہُ و رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ! اللہ جانے اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم جانیں (یعنی ہمیں کیا فِکْر...!! جو لا رہے ہیں، انتظام بھی وہی فرمائیں گے)۔ اتنے میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم بھی تشریف لے آئے، فرمایا: اُمِّ سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے، لے آؤ! انہوں نے چند روٹیاں حاضِر کیں، فرمایا: انہیں چُور دو! روٹیاں چُور دی گئیں۔ فرمایا: اِن پر گھی ڈال دو! گھی بھی ڈال دیا گیا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے اس کھانے پر کچھ پڑھا، پِھر فرمایا: 10 افراد کو بُلا لو! 10 صحابہ حاضِر ہوئے، جی بھر کر کھانا کھایا۔ پِھر فرمایا: مزید 10 کو بُلا لو! مزید 10 حاضِر ہوئے، جی بھر کر کھایا، پِھر مزید 10 کو بُلا لیا گیا، یوں 10، 10 کر کے تقریباً 80 صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضْوَان نے کھانا کھایا۔([1]) اس کے باوُجُود کھانا جُوں کا تُوں موجود تھا، پِھر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے خُود بھی تناوُل فرمایا، سب اَہْلِ خانہ نے بھی کھایا مگر قربان جائیے! کھانا ابھی بھی باقی تھا۔([2])
مالِکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں اُن کے خالی ہاتھ میں([3])
بڑا مشہور واقعہ ہے، آپ نے سُنا بھی ہو گا، صحابئ رسول حضرت جابِر رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: صلح حدیبیہ کے دِن پانی میسر نہیں تھا، پیاس لگی تھی، صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضْوَان نے بارگاہِ