Book Name:Do Jahan Ki Naimatain
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیّٖن
اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہ وَعَلٰی آلِکَ وَاَصْحٰبِکَ یَاحَبِیْبَ اللہ
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَانَبِیَّ اللہ وَعَلٰی آلِکَ وَاَصْحٰبِکَ یَانُوْرَ اللہ
نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکَاف (ترجمہ: میں نے سُنَّت اعتکاف کی نِیَّت کی)
حضرت وَہْب بن مُنَبّہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ سے روایت ہے، بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا، اللہ پاک نے اُسے 200 سال کی زِندگی عطا فرمائی مگر افسوس! اس نے اتنی لمبی زندگی اللہ پاک کی نافرمانیاں کرتے ہوئے گزار دی ۔
(اب چُونکہ اس نے اتنے گُنَاہ کئے تھے، اس لئے بنی اسرائیل اُس سے نفرت کیا کرتے تھے)، چنانچہ اُسی حالت میں جب اُس کا انتقال ہو گیا تو لوگوں نے ( نہ اُس کو غسل دیا، نہ کفن پہنایا، نہ نمازِ جنازہ پڑھی بلکہ) اس کے مُردَہ جسم(Dead Body) کو گھسیٹ کر گندگی کے ڈھیر پر ڈال دیا۔
اِدَھر بنی اسرائیل نے یہ انداز اپنایا، اُدھر رَبِّ کائنات نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی بھیجی (اور فرمایا: اے موسیٰ! ہمارا ایک بندہ انتقال کر گیا ہے) آپ اُس کو غسل دیجئے، اُسے کفن پہنائیے اور اُس کی نمازِ جنازہ پڑھ کر اس کی تدفین کیجئے! ( چنانچہ حکمِ رَبَّانی ملنے پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اس مقام پر پہنچے، بنی اسرائیل سے اُس کے بارےمیں پُوچھا کہ آخر اُسے گندگی کے ڈھیر پر کیوں ڈالا گیا ہے؟ بنی اسرائیل نے بتایا: اے اللہ پاک کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام! یہ بڑا گنہگار بندہ ہے، اِس نے اپنی 200 سالہ زِندگی گُنَاہوں میں گزار دی،) یہ سُن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کو حیرانی