Book Name:Rishtedaro Ke Huqooq
آواز دی تو اس خُراسانی نے جواب دے دیا، اس نے بتایا کہ تمہاری امانت فُلاں جگہ رکھی ہے، وہاں سے جا کر لے لو!
اب مال کا پتا تو چل گیا تھا، اس امانت رکھوانے والے نے خُراسانی سے پوچھا: تُو تو بہت نیک آدَمی تھاتَو یہاں (جہنمی رُوحوں والے کنویں میں) کیسے پہنچ گیا؟ وہ بولا: میرے کچھ رشتے دار خُراسان میں تھے جن سے میں نے قطعِ تعلّق کر (یعنی رشتہ توڑ) رکھا تھا، اسی حالت میں میری موت آگئی، اس سبب سے اللہ پاک نے مجھے یہ سزادی اور اس مقام پرپہنچادیا۔([1])
اللہُ اکبر! یہ ہے رشتے توڑنے کی سزا...!! وہ لوگ جو کام کاج وغیرہ کے سلسلے میں دوسرے شہروں میں چلے جاتے ہیں، دوسرے ملکوں میں جا کر رہائش اختیار کر لیتے ہیں اور پیچھے والے رشتے داروں کو بُھول ہی جاتے ہیں، ان کے لئے اس واقعہ میں عِبْرت ہی عِبْرت ہے، ہمیں چاہئے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ رابطہ بھی بحال رکھیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک بھی کرتے رہا کریں۔
ہاتھوں ہاتھ پھوپھی سے صُلح کرلی
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ صحابئ رسول ہیں۔ آپ لوگوں کو دَرْس دیا کرتے تھے، ایک دِن آپ لوگوں کو حدیثیں سُنا رہے تھے، اس دوران فرمایا: ہر قاطِعِ رحم (یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہماری محفل سے اُٹھ جائے۔ یہ اعلان سُن کر ایک نوجوان اُٹھا اور اپنی پھوپھی جس کے ساتھ اس کا کئی سال پُرانا جھگڑا چل رہا تھا، اس کے ہاں چلا گیا، جاکرمُعافی تلافی کی، پھوپھی کو راضی کر لیا۔ جب دونوں آپس میں راضی ہو گئے تو پھوپھی نے کہا: بیٹا! تم جا