Rishtedaro Ke Huqooq

Book Name:Rishtedaro Ke Huqooq

وقفے وقفے سے) ملتے رہنا چاہئے، مثلاً ایک دِن ملنے کو جائیں، دوسرے دِن نہ جائیں، جمعہ جمعہ ملتے رہیں، رشتے دار دُور رہتے ہوں تو مہینے میں، دو چار مہینے میں ایک بار ملنے چلا جایا کرے۔

یہاں ایک بات عرض کر دوں، جن رشتے داروں سے پردہ ہے، مثلاً خالہ زاد، ماموں زاد بہنوں سے مرد کا پردہ ہے، چچا زاد، تایا زاد بہنوں سے بھی پردہ ہے، ان سے پردہ ہی کیا جائے گا، انہیں وائس میسج یا ویڈیو میسج وغیرہ کرنے سے بھی گریز کرنا ہے۔ ہاں! خالہ، پھوپھی وغیرہ جن سے پردہ نہیں ہے، ان سے ملنے بھی جائیے! فون پر بھی بات کیجئے! چاہیں تو ویڈیو کال بھی کر سکتے ہیں۔

رشتے دار حاجت پیش کرے تو ردّ کرد ینا گناہ ہے

مفتی امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  بہارِ شریعت میں مزید لکھتے ہیں: جب اپنا کوئی رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے تو اس کی حاجت پُوری کرے، اس کو رَدّ کر دینا قطعِ رحم (یعنی رشتہ توڑنا) ہے۔([1])  مثلاً رشتے دار کو پیسے کی ضرورت ہے، وہ قرض مانگ لیتا ہے، اگر رقم دے سکتے ہیں تو دے دیجئے! طاقت ہونے کے باوُجُود رَدّ کر دینا قطعِ رحمی ہے  جو کہ وبال ہے۔

وہ توڑے تب بھی تم جوڑو

رشتے داری کا ایک حق یہ بھی ہے کہ رشتے دار تعلق توڑے، ہم پِھر بھی تعلق جوڑتے ہی رہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے:

لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا

یعنی صِلَہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو اَدْلا بَدْلا کرے (مثلاً رشتے دار سلام کرے تو یہ


 

 



[1]... بہارِ شریعت، جلد:3،حصہ :16،صفحہ:559۔۔