Book Name:Safr e Haj Key Adab
درپیش ہے، کوئی ایسا ہم سَفَر بتائیے، جس کی صحبتِ بابَرَکت کا فیض لوٹتے ہوئے اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضِر ہو سکوں۔ حضرت حاتِمِ اَصَمّ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: اے بھائی! اگر تم ہم نشین چاہتے ہو تو تِلاوتِ قرآن کی ہم نشینی (یعنی صحبت) اختیار کر لو...!! ([1])
یہ بہترینِ ہم سَفَر ہے۔ کثرت سے تِلاوت کریں، دِل میں تقویٰ آئے گا* گُنَاہوں سے بچیں، دِل نرم ہو گا *نیکیوں پر نیکیاں کریں، دِل پاک صاف ہو گا *کثرت سے توبہ کریں، اِسْتِغْفَار کی کَثْرت کریں، اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! دِل پاک صاف ہو گا تو سَفَرِ حجّ کا لطف دوبالاہو جائے گا۔
(4):سَفَرِ حجّ اور دَرْسِ مَسَاوات
اللہ پاک نے مزید فرمایا:
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ- (پارہ:2، سورۂ بقرہ:199)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: پھر (اے قریشیو!) تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے دوسرے لوگ پلٹتے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں عُلمائے کرام فرماتے ہیں: قریش چونکہ بہت فضیلت والا قبیلہ ہے، لہٰذا زمانۂ جاہلیت میں قریش کی یہ عادَت تھی کہ یہ عام لوگوں کی نسبت خُود کو ممتاز رکھتے تھے، ہوتا یوں کہ یہ مُزْدَلِفہ میں ٹھہرے رہتے میدانِ عَرَفات نہیں جاتے تھے، باقی لوگ عرفات میں چلے جاتے۔اس میں یہ اپنی بڑائی سمجھتے تھے کہ ہم عام لوگوں جیسے نہیں ہیں، ہم دوسروں سے بہت افضل و اعلیٰ ہیں ، لہٰذا ہم عام لوگوں کی طرح میدانِ عَرَفات نہیں جائیں گے۔اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور قریش کو کہا گیا کہ تم بھی عام لوگوں