رسولُ اللہ کا صحابہ کے ساتھ انداز

انداز میرے حضور کے

رسول اللہ کاصحابہ کے ساتھ انداز

*مولانا شہروز علی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2023

زندگی میں انسان کا طور طریقہ ،رہن سہن اورملنے جلنے کا انداز بڑی اہمیت کا حامل ہے۔جیسے شمع پروانوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے اسی طرح حُسنِ اخلاق ،ملنساری ،عاجزی و انکساری اور خیر خواہی کی خوشبو میں بسا انسان ہر دل کی دھڑکن بنا رہتا ہے۔  یہ معاملہ تو عام انسانوں کا ہے کہ حُسنِ اخلاق کی چاشنی لوگوں کے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے،اگر ہم بات کریں ان کی کہ جن کا دہنِ اقدس چشمہ علم و حکمت ٹھہرا ،جن کی زبان کُن کی کنجی بنی ،جن کی ہر بات وحیِ خدا ہوئی،جن کا مسکرانا ایسا کہ روتے ہوئےبھی ہنس پڑیں، جن کے اخلاق ایسے کہ خود ربِّ اکبر ان کو عظیم فرمائے۔ان کا اپنے صحابہ کے ساتھ ہر انداز ہی نرالا ہر ادا ہی پیاری ہے۔

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام کے ساتھ کئی معاملات میں مشاورت فرماتے، سوالات کے جوابات دیتے، ان کے مختلف امور میں ان کی راہنمائی فرماتے، سامنے والے کی کیفیت کے مطابق کبھی پرسنل اصلاح فرماتے تو کبھی اجتماعی نصیحت فرماتے، سفر و حضر میں گھل مل کر رہتے، بچّوں بڑوں سبھی کو خاص اہمیت دیتے، سامنے والے کی صلاحیت و قابلیت کی تعریف فرماتے، تعلیم و تربیت کا اہتمام  فرماتے، سوالات اور دیگر کئی امور پر حوصلہ افزائی بھی فرماتے الغرض صحابہ کرام کی زندگی کا ہر باب اس حوالے سے روشن ہے کہ انہیں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نرالے اور دِل موہ لینے والے انداز ملے۔ یہاں صرف تعلیم و تربیت ، مشاورت ،حوصلہ افزائی سے آراستہ محبت بھرے انداز کی چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں:

تعلیم و تربیت:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنے صحابہ کی تعلیم و تربیت کرنے کا ایسا دل موہ لینے والا انداز رہا کہ بندہ اس پر قربان ہو جائے، آپ صرف زبانی کلامی تربیت نہیں کرتے تھے بلکہ عملی تربیت بھی فرماتے تھے جیسا کہ ایک ضرورت مند صحابی نے آپ سے کچھ مانگا جس پر آپ نے ان کی تربیت کرتے ہوئے ان کا گھریلو سامان دو درہم میں بیچ کر فرمایا:ایک درہم سے غلہ خرید کر اپنے گھر والوں کو دو اور ایک درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔جب وہ کلہاڑی لےکر آئے تو آپ نے اپنے ہاتھوں سے اس میں لکڑی کا دستہ لگایا اور فرمایا: جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر بیچو، پندرہ دن تک مجھے نظر نہ آنا ۔وہ صحابی چلے گئے ، پندرہ دن میں انہوں نے پندرہ درہم کما لئے ۔انہوں نےاس سے غلہ اور کپڑا خریدا ۔پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں دیکھ کر فرمایا: یہ کام تمہارے حق میں اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن اس حال میں آؤ کہ تمہارے چہرے پر دھبّا ہو۔ ([1])

کسی کو سمجھائیں تو ایسےسمجھائیں: سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی اس بات کی ضرورت محسوس فرماتے کہ غلطی پر براہِ راست تنبیہ کی جائے تو انتہائی نرمی اور محبت بھرے انداز میں سمجھاتے تاکہ سامنے والا حق بات قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوجائےجیسا کہ حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےپیچھے نماز پڑھ رہا تھا۔ دورانِ نماز کسی کو چھینک آئی تو میں نے ”يَرْحَمُكَ اللهُ“ کہا۔اس پر صحابہ مجھے آنکھوں سے اشارہ کرنے لگے۔ میں نے کہا: تمہاری ماں تم پر روئے،تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ (مجھےبولتا دیکھ کر)لوگ اپنے ہاتھوں کو رانوں پر مارنے لگے ۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ لوگ مجھے خاموش کروا رہے ہیں حالانکہ میں تو (اپنے خیال میں)خاموش ہوں۔ جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے مجھے سمجھایا اور کیسے سمجھایا وہ خود فرماتے ہیں: میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں، میں نے اتنا اچھا سمجھانے والا نہ پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعدمیں ، خدا کی قسم ! انہوں نے نہ مجھے ڈانٹا ،نہ مارا اور نہ ہی برا بھلا کہا بلکہ فرمایا : نمازمیں کلام مناسب نہیں ،یہ تو صرف تسبیح ، تکبیر ، اور تلاوتِ قراٰن (کا نام ) ہے۔  ([2])

صحابَۂ کرام سےمشاورت: مشورہ لینا آدمی کی خوبی کی علامت ہے جب کہ مشورے کے بغیر کام کو انجام دینا حماقت کی دلیل ہے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلا شبہ سب سے بڑھ کر عقل و خرد کے مالک تھے اس کے باوجود آپ اہم کاموں میں صحابہ کرام سے مشورہ طلب کرتے اور اگر ان کا مشورہ مفید ہوتا تو قبول کرتے بلکہ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ آپ نے اپنی رائے پر صحابہ کرام کے مشوروں کو ترجیح دی ہےجیسا کہ غزوہ بدر میں جب لشکر اسلام کے پڑاؤ ڈالنے کی بات آئی تو آپ نے بدر کے چشمے کے قریب ترین چشمے پر قیام کیا۔اس پر حضرت حُباب بن مُنذر  رضی اللہ عنہ نے پوچھا :کیا اللہ پاک کے حکم سے اس مقام پر نزول کیا یا محض جنگی حکمتِ عملی کے پیشِ نظر کیوں کہ جنگ کے دوران آگے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں یہ میری رائے ہے اور اسے جنگی حکمتِ عملی کے طور پر منتخب کیا۔اس پر حضرت حُباب بن مُنذر رضی اللہ عنہ نے مشورۃً عرض کی: یا رسولَ اللہ! یہ جگہ مناسب نہیں، آپ آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے قریبی چشمہ پر پڑاؤ ڈالیں،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم بقیہ چشمے پر حوض بنا کر پانی بھر لیں گے ،اس طرح ہم حسب خواہش پانی پیتے رہیں گے اور انہیں پانی میسر نہ ہوگا۔اس مشورے کو سن کر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَقَدْ أَشَرْتَ بِالرّاْيِ تم نے بہت اچھا مشورہ دیا۔ چنانچہ آپ نے اس مشورے کے مطابق آدھی رات کو دشمن کے قریب ترین چشمہ کے پاس پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔([3])

خندَق کھودنےکا مشورہ: جب قبائل عرب کے تمام کافروں کے اس گٹھ جوڑ اور خوفناک حملہ کی خبریں مدینہ پہنچیں تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اصحاب کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ جنگ ِ اُحد کی طرح شہر سے باہر نکل کر اتنی بڑی فوج کے حملہ کو میدانی لڑائی میں روکنا مصلحت کے خلاف ہے لہٰذا مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر اس حملہ کا دفاع کیا جائے اور شہر کے گرد جس طرف سے کفار کی چڑھائی کا خطرہ ہے ایک خندق کھود لی جائے تاکہ کفار کی پوری فوج بیک وقت حملہ آور نہ ہو سکے، مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات کی تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا مدینہ کا صرف ایک رُخ کھلا ہوا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اسی طرف پانچ گز گہری خندق کھودی جائے،چنانچہ 8 ذوالقعدہ 5 ھ کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے۔([4])

حوصلہ افزائی: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممختلف مقامات میں اپنے صحابہ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی بھی فرمایا کرتے تھے جیساکہ غزوۂ احد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی تیر چلانے کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی ان لفظوں سے فرمائی : اِرْمِ  فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي اے سعد ! تیر پھینکو میرے ماں باپ تم پر قربان۔([5])

یہ وہ مبارک کلمات ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ جملے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے حضرت سعد کے علاوہ کسی اور کو نہیں کہے۔([6])

حضرت حسن کی حوصلہ افزائی: ایک مرتبہ حسنین کریمین حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے سامنے کُشتی لڑ رہے تھے۔نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے: حسن! حسین کو پکڑلو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے عرض کی:یارسول اللہ!آپ حسن کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں حالانکہ یہ بڑےہیں؟ سرکارِدوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:دوسری طرف جبریل امین ہیں جو ایسےہی حُسین کی مددکر رہے ہیں۔([7])

یہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کے گلشن کی چند پتیاں ہیں جنہیں یہاں مختصراً بیان کیا گیا ہے، اللہ پاک ان کی خوشبو سے ہمیں اپنی زندگی مہکانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ فیضان ِ حدیث، المدینۃ العلمیہ، کراچی)



([1])ابو داؤد، 2/169،حدیث:1641،ابن ماجہ، 3/36، حدیث: 2198 مختصراً

([2])مسلم،ص215، حدیث: 1199

([3])السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، 1/ 620مختصراً

([4])شرح الزرقانی علی المواہب، 3/19ملتقطاً

([5])بخاری،3/37، حدیث: 4057 مختصراً

([6])بخاری، 2/ 283، حدیث : 2905

([7])سیر اعلام النبلاء ،4/392


Share