آخری نبی ﷺ کا اندازِ امانت داری

انداز میرے حضور کے

آخری نبی کا اندازِ امانت داری

*مولانا محمدناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

ربِّ کریم نے اپنے حبیب کو جہاں مُعَلّمِ کائنات بنایا وہیں آپ کے انداز و کردار کو بھی ہمارے لئے کامل نمونہ قرار دیا ہے، آپ کی مبارک سیرت کا ایک بہت ہی شاندار پہلو امانت و دیانت بھی ہے۔حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ امانت و دیانت شروع سےمشہور تھی،اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ اِس خوبی سے جانےجاتے تھے۔ ([i])اور کفّار ومشرکین اِس کا اظہارو اعتراف کیاکرتے تھے۔([ii])جب آپ کی مبارک عمر25 سال ہوئی تو مکّہ میں آپ کو ”امین (امانت دار)“ کے لقب سے جانا جانے لگا۔ ([iii])

آئیے !آپ کی شانِ امانت داری کی کچھ جھلکیاں پڑھیے:

اعلانِ نبوت سے قبل اندازِ امانت داری:اعلانِ نبوت سے پہلےمکّہ کی معزّز،مال دار اور نہایت عقل مند خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا اپناسامانِ تجارت ملکِ شام بھیجنا چاہتی تھیں اور ایک امانت دار آدمی کی تلاش میں تھیں۔بی بی خدیجہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچائی وحسنِ اخلاق کے ساتھ ساتھ صفتِ امانت داری سے بھی خوب آگاہ تھیں، چنانچہ آپ نے رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یوں پیغام بھیجا:میری جانب سے آپ کو(سامان ِ تجارت کے ساتھ شام) بھیجنےکی پیشکش کا سبب وہ بات ہے جومجھے آپ کی (سچی) گفتگو، امانت داری اور اعلیٰ اخلاق کے بارے میں پہنچی ہے، ( اگریہ پیشکش قبول فرمالیں تو) میں آپ کودیگر کے مقابلے میں دگنا مُعاوَضہ دوں گی۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِسے قبول فرمایا اور پہلے سے کئی گنا زیادہ نفع ہوا۔([iv])حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا نےدیگر اوصافِ نبوی کے ساتھ امانت داری کی خوبی ملاحظہ فرمائی تو رسول ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کونکاح کا پیغام بھیجا اور سفر شام سے واپسی کے دو مہینے 25دن بعد آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا سے نکاح فرمایا۔ ([v])

اعلانِ نبوت کے بعد اندازِ امانت داری:اعلانِ نبوت کے بعد کفارِمکہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےبدترین دشمن ہوگئے تھے مگر اس کے باوجود یہ لوگ آپ کی دیانت داری پر بھرپور اعتماد کرتےہوئے آپ کے پاس اپنی قیمتی چیزیں بطورِ امانت رکھوایا کرتے تھے۔جب کفّارِ مکّہ کو آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رات میں مدینہ ہجرت کرجانے کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو شہید کرنے کے ارادےسے آپ کے گھر کامُحاصرہ کرلیا، ایسا دشمن جوجان لینےپرتُلا ہے مگررحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُس وقت بھی اِن امانتوں کو لوٹانے کی فکر فرما رہےہیں چنانچہ آپ نے حضرت علی المرتضی رضی اللہُ عنہ کو امانتیں سپرد کیں اور تمام امانتیں لوٹانے کے بعد مدینہ آنے کاحکم دیا۔([vi])

دینِ اسلام کو امّت تک پہنچانا بھی امانت داری میں شامل ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 23سال کے عرصے میں زندگی کے ہرشعبے سے متعلق امانتِ اسلام کو پوری طرح پہنچادیا، چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے پوچھا:

 اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم اُسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ اللہ پاک کی کتاب ہے ۔

 تم سے (قیامت کے دن) میرے بارے میں سوال ہوگا تو تم کیا جواب دو گے؟سب نے عرض کی:ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ پاک کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امّت کی بھلائی چاہی۔

یہ سُن کر آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کرکے یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے:اے اللہ! گواہ رہنا۔([vii])

 رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے انداز کے ساتھ الفاظ کے ذریعے بھی ہمیں امانت و دیانت کی تربیت دی ہے، اِس سلسلے میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:

(1)جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کر۔([viii])

(2)منافق کی تین علامتیں ہیں: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (۲)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (۳)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، اگرچہ وہ نماز پڑھتاہو، روزے رکھتا ہو اور اپنےآپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔([ix])

(3)عنقريب تم پرمشرق و مغرب کی زمينوں کے دروازے کھل جائيں گے لیکن ان کے عمال (یعنی حکمران) جہنمی ہوں گے سوائے اس کے جو اللہ پاک سے ڈرے اور امانت ادا کرے۔([x])

(4)گفتگوتمہارے درمیان امانت ہے۔([xi])

(5)جس میں امانت نہیں اس کا دین کامل نہیں۔([xii])

(6)تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی کو کوئی رخصت نہیں: (۱)والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا خواہ وہ مسلمان ہوں یاکافر(۲)وعدہ پوراکرناخواہ مسلمان سے کیا ہو یا کافر سے (۳)امانت کی ادائیگی خواہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ ([xiii])

(7)سچا اور امانت دار تاجر ؛انبیاء ،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔([xiv])

اللہ کریم ہمیں امانت داری کی سنّت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث، المدینۃ العلمیہ Islamic Research Center کراچی



([i])السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ص75

([ii])السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ص79

([iii])دلائل النبوۃ للاصفہانی، ص99

([iv])دلائل النبوۃ للاصفہانی،ص110-99،دلائل النبوۃ للبیہقی، 2/66

([v])مواہب لدنیہ، 1/101

([vi])شرح الزرقانی علی المواھب ،2/95-96

([vii])مسلم،ص490،حدیث: 2950

([viii])بخاری،1/37،حدیث:59

([ix])مسلم،ص53، حدیث: 212-213

([x])مسنداحمد،9/44،حدیث:23170

([xi])موسوعۃ لابن ابی الدنیا،7/244

([xii])شعب الایمان ،4/320،حدیث:5254

([xiii])شعب الایمان،4/82،حدیث: 4363

([xiv])ترمذی،3/5،حدیث:1213


Share