احرام کی نیت کر لی مگر تلبیہ کہنا بھول گیا تو؟ مع دیگر سوالات

دارُالافتاء اہلِ سنّت

*مفتی فضیل رضا عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

(1)گردہ Donate کرنےکی وصیت کرنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں یہ وصیت کرجائے کہ میرے گردے عطیہ کردینا، تو اس کا یہ وصیت کرنا کیسا ہے؟ اور اگر کسی نے وصیت نہ کی ہو،بغیر وصیت ہی اس مرحوم کے ورثاء اس کے مرنے کے بعد اس کےجسمانی اعضاء میں سے کوئی عضو مثلاً آنکھ یا گردے کسی کو عطیہ کردیں تو ان کا ایسا کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اولاًیہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وصیت اسی شے کے بارے میں کی جاسکتی ہے جس کا انسان خود مالک ہو اور وہ شے قابلِ تملیک بھی ہو (یعنی کسی اور کو اس کا مالک بنایا جاسکتا ہو) اور انسانی اعضاء نہ تو مال ہیں اور نہ ہی ملکیت کا محل ہیں، لہٰذا کسی اور کو ان اعضاء کا مالک بھی نہیں بنایا جاسکتا۔ نیز انسان اپنی زندگی میں اور موت کے بعد بھی اپنے تمام اجزاء کے ساتھ قابل احترام ہے، لہٰذا اس کے کسی عضو کو نکال کر اسے استعمال میں لانا اور اس سے کسی بھی طرح کا نفع اٹھا نا ناجائز و حرام ہے۔

لہٰذا اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں یہ وصیت کی کہ موت کے بعد اس کا گردہ یا اس کے جسمانی اعضاء میں سے کوئی عضو عطیہ کردیا جائے، تو اس کا یہ وصیت کرنا اور ورثاء کے لئے اس وصیت کو نافذ کرنا شرعاً ناجائز ہے، اگر ورثاء نے یہ وصیت نافذ کی یا بغیر وصیت کے خود ہی اس کے اعضا ء کسی کو عطیہ کردئیے تو وہ سخت گنہگار ہوں گے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)طواف کے بعد دو رکعت پڑھے بغیر دوسرا طواف کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھے بغیر دوسرا طواف کرنے کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر کسی نے ایسا کیا تو کیا ا س پر دم یا کفارہ لازم ہوگا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

طواف کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنا واجب ہے، اگر وقت مکروہ نہ ہو تو طواف اور ان دو رکعتوں کے درمیان موالات (یعنی دو رکعتوں کا طواف کے فوراً بعد ادا ہونا) سنت ہے، لہٰذا مکروہ اوقات کے علاوہ ایک طواف کی رکعتیں ادا کیے بغیر دوسرا طواف كرنا مکروہ اور خلاف سنت ہے کیونکہ اس سے طواف اور دو رکعتوں کے درمیان موالات کی سنت کا ترک لازم آئے گا البتہ اس کی وجہ سے کوئی دم یا کفارہ لازم نہیں ہوگا، ہاں اگر مکروہ وقت ہو تو بغیر دو رکعت پڑھے دوسرا طواف کرنا بلاکراہت جائز ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3) احرام کی نیت کرلی مگر تلبیہ کہنا بھول گیا تو۔۔۔؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کسی شخص نےپاکستان سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے میقات سے احرام کی نیت کر لی تھی مگر اس وقت تلبیہ کہنا بھول گیا اور میقات میں داخل ہو گیا پھر داخل ہونے کے بعد مسجد عائشہ سے ہی احرام کی نیت کی اور تلبیہ کہہ کر عمرہ کر لیا تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں نیت کے ساتھ اگر اس شخص نے تلبیہ کے علاوہ کوئی اور ایسا ذکرِ الٰہی بھی نہ کیا جس میں اللہ پاک کی تعظیم ہو (مثلاً سبحٰن اللہ وغیرہ) تواس پر دَم دینا واجب ہے کیونکہ احرام میں داخل ہونے کے لئے احرام کی نیت اور تلبیہ کہنا یا ایسا ذکر کرنا جس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہو(مثلاً سبحٰن اللہ و الحمدُ لِلّٰہ وغیرہ) ضروری ہے،مذکورہ صورت میں وہ شخص تلبیہ کہنا بھول گیا اور تعظیمِ الٰہی والا کوئی ذکر بھی اس نے نہیں کیا لہٰذا وہ محرِم نہ ہوا، یوں بغیر احرام میقات میں داخل ہونے کی وجہ سے اس پر حج یا عمرہ اور دَم واجب ہوا۔ اس صورت میں اس پر لازم تھا کہ عمرہ شروع کرنے سے پہلے کسی آفاقی میقات (مثلاً طائف یا مدینہ شریف کی میقات) پر جاکردوبارہ احرام کی نیت کرتا اور ساتھ ہی تلبیہ بھی کہہ کر احرام باندھتا اور عمرہ ادا کرتا، اگروہ ایسا کر لیتا تو دم ساقط ہو جاتا لیکن اس نے حل سے احرام کی نیت اورتلبیہ کہہ کر عمرہ ادا کر لیا تواس صورت میں اس پر دم دینا تو لازم ومتعین ہو گیا لیکن اسی سال عمرہ کر لینے سےاس پر لازم آنے والا عمرہ ادا ہو گیا اگرچہ اس نے خاص اس واجب ہونے والے عمرہ کی نیت نہ کی ہو کہ اصل مقصد اس خطہ مبارکہ کی تعظیم ہےجو کسی بھی قسم کے حج یا عمرہ سے حاصل ہو جاتی ہے، چاہے حل سے ہی احرام کیوں نہ باندھا ہو کہ آفاقی میقات سے احرام باندھنا جو واجب تھا اس کی تلافی دم دینے سے پوری ہو جائے گی۔

تنبیہ! صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص اس سال کسی بھی قسم کا حج یا عمرہ ادا نہ کرے تو آئندہ سال خاص اس (میقات سے بلا احرام تجاوز کرنے کی وجہ سے لازم ہونے والے) حج یا عمرہ کی ادائیگی کی نیت سے حج یا عمرہ کرنا لازم ہوگا،اب یہ لازم آنے والا حج یا عمرہ کسی اور حج یا عمرہ کے ضمن میں ادا نہیں ہوگا کیونکہ سال گزرنے کی وجہ سے یہ عمرہ یا حج بطور قضاء اس پر لازم ہوگیا ہے اور قضاء کی ادائیگی میں نیت کی تعیین ضروری ہے، نیز اس صورت میں بھی قضا حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لئےاگر یہ شخص حل میں ہے تو حل سے، مکہ میں ہےتو عمرہ کا احرام حل سے جبکہ حج کا احرام حرم سےباندھنا اسے کافی ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(4)نماز جمعہ میں مجمع زیادہ ہو تو سجدہ سہو کرنے کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ یہ مسئلہ تو معلوم ہے کہ جمعہ وعیدین میں جبکہ مجمع زیادہ ہو تو سہو ہونے کی صورت میں سجدہ سہو ترک کرنے کا حکم ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں اگر سجدہ سہو کرلیا، تو کیا حکم ہے؟ نماز درست ہوگی یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جمعہ اورعیدین میں جبکہ مجمع زیادہ ہو تو سہو ہونے کی صورت میں متأخرین فقہائے کرام کے نزدیک مختار یہ ہے کہ سجدہ سہو نہ کیا جائے لیکن اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ سجدہ سہو کرنا ہی ناجائز ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ نہ کرنا بہتر ہے، لہٰذاجمعہ یا عیدین میں مجمع زیادہ ہونے کی صورت میں سجدہ سہو کر لیا،تو اگرچہ یہ بہتر نہیں مگراس سے نماز میں کوئی حرج واقع نہیں ہوگا، بلکہ نماز جائز و درست ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* دارالافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی


Share