حضرت سیدنا الیاس علیہ السّلام  (قسط:02)

انبیائے کرام کے واقعات

حضرت سیدنا الیاس  علیہ السّلام(قسط: 02)

*مولانا ابو عبید عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

حضرت سیّدنا الیاس علیہ السّلام کی  حیات مبارکہ کا مختصر تذکرہ پچھلے ماہ کے شمارے میں گزرا، آیئے اب آپ کی  کچھ تفصیلی سیرت مبارکہ پڑھئے:

پیدائش:جب حضرت الیاس علیہ السَّلام پیدا ہوئے تواس رات انوار و تجلیات کا ظہور ہوا جن سے بنی اسرائیل کے محلات روشن ہوگئے بنی اسرائیل کے بادشاہوں نے جب یہ دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ کوئی زبردست بات ہوئی ہے، بادشاہوں نے خبر معلوم کروائی توانہیں بتایا گیا کہ حضرت ہارون علیہ السَّلام کے گھرانے میں  ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی ہے۔([1]) آپ نے بہترین پرورش پائی، بنی اسرائیل قوم آپ کے بارے میں کہا کرتی تھی: یہی حضرت الیاس علیہ السَّلام وہ خوش نصیب ہیں جن کے بارے میں حضرت ہارون کے بیٹے حضرت عیزار نے ہمیں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ اللہ اپنے ایک بندے کے ہاتھوں بنی اسرائیل کےسرکش بادشاہوں اور نافرمان سرداروں کو ہلاک فرمائے گا۔([2])

کم عمری میں جان کا خطرہ:جب آپ سات سال کے ہوئے توریت حفظ کرنا شروع کردی ایک مرتبہ آپ نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہیں اپنی طرف سے ایک عجیب چیز دکھاتا ہوں۔ پھر آپ نے قوم کو بلند آواز سے پکارا آواز دور دور تک گئی اور لوگوں کے دلوں کو خوفزدہ کرگئی جب لوگوں کاخوف ختم ہوا اور دل پرسکون ہوئے تو انہوں نے آپ کو قتل کرنے کاپکا ارادہ کرلیا، کسی نے تو یہ تک کہہ دیا: یہ بچہ جادوگر ہے۔([3]) لہٰذا (خطرہ محسوس ہونے پر) آپ نے وہاں سے ہجرت کی اور پہاڑوں کی طرف نکل آئے وہ لوگ آپ کا پیچھا کررہے تھے جب وہ لوگ قریب پہنچے تو ایک پہاڑ شق ہوگیا اور آپ اس میں داخل ہوگئے (اور پہاڑ دوبارہ پہلے جیسا ہوگیا) یہ دیکھ کر وہ لوگ واپس چلے گئے۔ بادشاہ کو یہ خبر پہنچی تو اس نے آپ کا پیچھا کرنے والے لوگوں کو سزا دی۔([4])

پہاڑ نے آپ سے کلام کیا:اس پہاڑ نے آپ علیہ السّلام  سے کلام کیا کہ اے الیاس! میں آپ کے ٹھہرنے اور قیام کی جگہ ہوں اس طرح آپ نے وہیں اپنی رہائش کرلی، پہاڑ پھر سے شق ہوگیا (آپ جب چاہتے پہاڑ سے باہر تشریف لے آتے) جنگلی جانوروں کے ساتھ آپ (پہاڑ کے) چکر لگاتے تھے۔([5])

اعلانِ نبوت:آپ گری پڑی مباح چیزوں کو اٹھاکر کھالیتے تھے (اسی طرح ایامِ زندگی گزرتے رہے) یہاں تک کہ آپ کی عمر مبارک 40 سال ہوگئی۔ اللہ کریم نے آپ کو  اعلانِ نبوت كا حكم ديا اور حضرت جبرائیل علیہ السّلام وحی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور حکم ربانی سنایا کہ آپ باطل معبودوں کی عبادت کرنے والی بنی اسرائیل قوم اور ان کے بادشاہوں اور نافرمان سرداروں کےپاس جائیں اور انہیں ایک اللہ کی عبادت اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف بلائیں، پھر آپ کو اللہ کریم نے قوت عطا فرمائی اور جنگلی جانور،پہاڑ اور آگ کو آپ کا تابعدار بنادیا۔ بنی اسرائیل قوم اس وقت 70 بستیوں میں آباد تھی اور ہر بستی ایک الگ شہر کا درجہ رکھتی تھی کہ ہر بستی کا ایک الگ ہی سردار اور بادشاہ تھا جو وہاں کے انتظامی معاملات چلایا کرتا تھا یہ سب لوگ ”بعل “نامی ایک باطل معبود کی عبادت کیا کرتے تھے۔([6])

آگ نے رسالت کی گواہی دی:حضرت الیاس علیہ السَّلام حکمِ الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے ایک بستی میں پہنچے جس کے بادشاہ کا نام آجاب تھا آپ کے بدن پر اس وقت ایک اون کا جبہ تھا، آپ بادشاہ کے محل کے قریب کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور بہترین آواز اور لب ولہجہ میں توریت شریف پڑھنا شروع کردی بادشاہ کے کانوں میں آپ کی آواز پہنچی تو اپنی ملکہ سے کہنے لگا:کیا تمہیں آواز نہیں سنائی دے رہی ؟ یہ آواز کتنی پیاری اور خوب ہے، ملکہ کھڑی ہوئی اور (محل کے) اوپر سے جھانکا پھر پوچھا: اے مرد ! تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ آپ نے نماز سے فارغ ہوکر اپنا اور اپنے والد کا نام بتایا اور فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں،([7])اس نے پوچھا: اس دعویٰ کی سچائی میں آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟آپ نےکہا: آگ لے آؤ! اللہ کی قدرت سے وہ میرے بارے میں بتائے گی کہ میں کون ہوں، ملکہ آگ لے کر آئی تو آپ نے آگ سے فرمایا: اللہ کی قدرت سے میرے بارے میں بتا، آگ کے شعلے اوپر اٹھے اور اسے قوتِ گویائی مل گئی،کہنے لگی:اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، حضرت الیاس اللہ کےرسول ہیں، ملکہ یہ دیکھ کر حیران ہوگئی ([8])اور جاکر بادشاہ کو ساری بات بتادی، یہ سن کر بادشاہ آپ کے پاس چل کر آیا پھر دونوں میاں بیوی آپ پر ایمان لے آئے آپ نے بادشاہ کو صبر اور جہاد کی نصیحت فرمائی،اس کے بعد آپ واپس آگئے۔

آگ بجھ گئی:دن اسی طرح گزرتے گئے پھر ایک دن بنی اسرائیل قوم میں تہوار کا دن آیا تو سب لوگ خوب بناؤ سنگھار اور زیب و زینت کرکے باہر نکل آئے اور اپنے باطل معبود بعل کو ایک جگہ کھڑاکردیا، آپ علیہ السَّلام تشریف لائے اور انہیں معبود حقیقی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی طرف بلایا، اور فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں کیا بعل(جھوٹے معبود) کو پوجتے ہو اور چھوڑتے ہو سب سے اچھے پیدا کرنے والے اللہ کو جو رب ہے تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا([9])  قوم نے پوچھا: تم کون ہو؟آپ نے فرمایا:کیا تم مجھے بھول گئے میں تم ہی میں سے ہوں اور تمہارے ساتھ رہتا تھا، میں الیاس ہوں، یہ سنتے ہی انہوں نے آپ کے منہ مبارک کی طرف مٹی پھینکنی شروع کردی ہر طرف سےآپ کی جانب پتھر پھینکے جارہے تھے (اے اللہ ! ہمیں اپنے پیاروں کی بے ادبی سے محفوظ رکھ!)، سب سے بڑے بادشاہ کا نام عامیل تھا، اس نے تانبے کی ایک بڑی دیگ میں تیل گرم کرنے کا حکم دیا، پھر (جب تیل جوش مارنے لگا تو) عامیل بادشاہ آپ علیہ السَّلام سے کہنے لگا: اگر تم واپس چلے جاتے ہو (توتمہاری جان بخشی جائے گی ) ورنہ میں تمہیں اس کھولتے تیل میں پھینک دوں گا۔ آپ نے فرمایا: میں اس سر زمین پراکیلا ہوں اور تم سب کے مقابلے میں تنہا ہوں، البتہ ایک ایسی نشانی دکھا سکتا ہوں جو میرے اس دعویٰ کی سچائی کی دلیل ہے کہ مجھے تمہاری طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔یہ سن کر بادشاہ نے کہا: ٹھیک ہے (دلیل لاؤ)! آپ نے فرمایا:اے آگ ! تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بجھ جا، آپ کے منہ سے ان کلمات کا نکلنا تھا کہ آگ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بجھ گئی اور تیل کا جوش ٹھنڈا ہوگیا یہ دیکھ کر لوگ حیران رَہ گئے۔                                                                                                                                                                                  بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/10

([2])نہایۃ الارب فی فنون الادب، 14/10

([3])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/10

([4])نہایۃ الارب فی فنون الادب، 14/10

([5])قصص الانبیاء للکسائی،ص:244۔ نہایۃ الارب فی فنون الادب، 14/10

([6])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/10 تا 11

([7])قصص الانبیاء للکسائی، ص:245۔ نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/11

([8])قصص الانبیاء للکسائی،ص245

([9])پ23،الصفت:124 تا 126


Share