حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے آنسو

روشن ستارے

حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کے آنسو

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

ایک مرتبہ حضرت سَیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے کہا: آپ حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو انہوں نے حضرت عثمان غنی کی تعریف یوں بیان کی: ابو عمرو (حضرت عثمان غنی) پر اللہ کی رحمت ہو،وہ مخلوق میں افضل اور تلاوت کرنے والوں میں سب سے زیادہ باہمت تھے، سحری کے وقت اٹھ کر عبادت کرنے والےاور ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے بہت زیادہ آنسو بہانے والے تھے، جو حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ کو بُرا کہےگا اللہ جبار روزِ قیامت تک اس شخص کے پیچھے ندامت لائےگا (یعنی مسلمان قیامت تک ایسے شخص کو برا کہتے رہیں گے)۔([1])

پیارے اسلامی بھائیو! حضرت سَیّدُناذوالنورین عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کے بے شمار عمدہ اوصاف میں سے ایک اعلیٰ وصف یادِ الٰہی قائم کرکے خوب گریہ و زاری کرنا بھی ہے، لیکن یہ عمدہ وصف صرف ذکرِ الٰہی کے وقت نہ تھابلکہ دیگر لمحات میں بھی آپ کی آنکھیں پُرنم ہوجاتی تھیں، اس ضمن میں کچھ واقعات ملاحظہ کیجئے:

آبدیدہ ہوکر واقعہ بیان کیا:

ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ  نے اپنے شہزادے حضرت عَمْرو بن عثمان کو ابتدائی دورِ رسالت میں پیش آنے والی مشکلات کا واقعہ سنایا: ایک بار رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیتُ اللہ شریف کا طواف کررہے تھےرحمتِ عالم نے اپنے ہاتھ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، حجر اسود کے پاس تین کافر ابو جہل، عُقبہ بن ابی معیط اور اُمَیّہ بن خلف بیٹھے ہوئے تھے جب رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  حجر اسود کے پاس سے گزرے تو ان تینوں نے حضور اقدس کی شان میں کچھ نازیبا کلمات کہے (جن کی وجہ سے نبی کریم کو تکلیف پہنچی) اس تکلیف کا اثر نبی مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرے مبارکہ پر ظاہر ہورہا تھا، یہ دیکھ کر میں رحمتِ عالم کے قریب آگیا اب حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے اور حضرت ابو بکر صدیق کے درمیان میں تھے حضور اقدس نے اپنی انگلیوں کو میری انگلیوں میں داخل کرلیا اب ہم تینوں مل کر طواف کررہے تھے دوسرا چکر لگاتے ہوئے ان کافروں کے قریب پہنچے تو ابو جہل کہنے لگا: ہم تم سےتب تک صلح نہیں کریں گے جب تک سمندر میں اتنا پانی ہو کہ اس سے اُون کا ٹکڑا بھی گیلا ہوجائے، ہمارے آباء و اجداد جن کی عبادت کرتے تھے تم ہمیں ان کی عبادت کرنے سے روکتے ہو،پھر تیسرا چکر لگا تو ان لوگوں نے اسی طرح کی بات کی، چوتھے چکر پر تینوں کافر تیزی سے کھڑے ہوگئے ابو جہل نے جھپٹا مار کر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گریبان مبارک کو پکڑنا چاہا تو میں نے اس کے سینے پر (ہاتھ مار کر ) اسے دھکادیا تو وہ پیٹھ کے بل جاگرا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے امیہ بن خلف کو دھکیلا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عُقبہ بن ابی معیط کو روکا پھر یہ تینوں کافر الگ ہوگئے، اللہ کی قسم ! ان کافروں میں سے ہر ایک پر خوف طاری تھا اور وہ کپکپارہے تھے، نبیِّ کریم نے وہیں کھڑے ہوکر یہ جملہ ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم تم لوگ ان کافروں کو نہ روکتے تو جلد ہی اللہ کا عذاب ان کو پکڑ لیتا۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے حضرت عثمان غنی کی آنکھوں سے سیل اشک رواں تھے۔([2])

اہلِ بیت کی حالت پر آنکھیں ڈبڈباگئیں:

ایک بار رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر والوں نے چاردن تک کچھ نہ کھایا یہاں تک کہ بچے بھوک سے بلبلا اٹھے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وضو فرمایا اور مسجد تشریف لے گئے کبھی ایک جگہ نماز ادا فرماتے تو کبھی دوسری جگہ دعا کرتے (لیکن اپنے کسی صحابی کو اس بات کی خبر نہ دی)، دن کے آخری حصے میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ حاضر ہوئے اور داخل ہونے کی اجازت طلب کی، حضرت بی بی عائشہ رضی اللہُ عنہا نے انہیں اجازت دے دی، وہ اندر آئے اور پوچھا: اے اُمُّ المؤمنین! رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کہاں ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے سارا معاملہ بیان کردیاجسے سن کر آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں پھر کہنے لگے: دنیا کا ناس ہو، آپ نے مجھے، عبد الرحمٰن بن عوف، ثابت بن قیس اور دیگر مالدار مسلمانوں کو اس بارے میں کیوں نہیں بتایا؟پھر آپ باہرگئے اور بہت سارا سامان لائےجس میں آٹا،گندم، کھجوریں، (ذبح شدہ اور) کھال اُتری ہوئی ایک بکری اور 300درہم سے بھری ایک تھیلی تھی۔ پھر کہا: اس سامان سے (کھانا پکانے اور کھانے میں) دیر لگے گی، لہٰذا روٹیاں اور بہت سارا بھنا ہوا گوشت لے آئے اورکہنے لگے: آپ حضرات یہ تناول فرمائیے اور رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے بھی رکھ دیجئے، پھر بی بی عائشہ رضی اللہُ عنہا کو قسم دیتے ہوئے کہا: آئندہ جب بھی ایسا ہو تو مجھے ضرور خبر دیجئےگا۔([3])

آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی:

حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ جب کسی کی قبر پر تشریف لے جاتے تو اس قدر روتے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی، کسی نے عرض کی: جنت اور دوزخ کے تذکرے پر آپ اتنا نہیں روتے جتنا کہ قبر پر روتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: بیشک نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے، اگر صاحبِ قبر نے اس سے نجات پالی تو بعد کا معاملہ آسان ہے اور اگر اس سے نجات نہ پائی تو بعد کا معاملہ زیادہ سخت ہے۔([4])

دامادی سے محروم ہونے پراشکبار ہوگئے:

سن 2 ھ 19رمضان کو حضرت بی بی رقیہ رضی اللہُ عنہا کی وفات ہوئی تھی جس پر حضرت عثمان غنی زارو قطار روئے، حضور اکر م صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا: کیوں رو رہے ہو؟ عرض کی: آپ کی دامادی سے محروم ہوگیا ہوں، ارشاد فرمایا: مجھ سے جبریل امین نے کہا ہے کہ اللہ کریم کاحکم ہے کہ میں اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم کا تم سے نکاح کردوں بشرطیکہ مہر وہ ہو جو رقیہ کا تھا چنانچہ حضرت اُمِّ کلثوم کا نکاح آپ سے کردیاگیا۔([5]) 9ھ میں حضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہُ عنہا کا وصال ہوا تو حضرت عثمان غنی رونے لگے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح تم سے کردیتا۔([6])

حضرت مقداد کی وفات پر آنسو اُمَڈ آئے:

قدیمُ الاسلام صحابی حضرت مِقْداد بن اَسْوَد کِنْدِی رضی اللہُ عنہ نے 72 سال کی عمر پائی سن 33 ھ مدینے سے 3 میل دور مقامِ جُرُف میں آپ کا انتقال ہواآپ کی نعش مبارکہ کو لوگوں کے کندھوں پر رکھ کر مدینے لایا گیا آپ سے داغ ِ مفارقت پر حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ([7])

اہلِ محبت روپڑے:

حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ نے 35 ھ 18 ذو الحجہ روزے کی حالت میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی شہادت پر امت مسلمہ غم میں ڈوب گئی اور اہلِ محبت کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو جاری ہوگئے تھے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([1])معجم کبیر،10/238،حدیث:10589ملتقطاً

([2])الوفاء لابن الجوز ی،1/151 ملتقطاً

([3])تاریخ ابن عساکر، 39/53-فضائل الخلفاء الراشدین، لابی نعیم، ص:51، ملخصاً

([4])ترمذی، 4/138، حدیث: 2315

([5])مرقاة المفاتیح،10/445،تحت حدیث:6080

([6])انساب الاشراف للبلاذری،1/401، رقم: 864

([7])تاریخ ابن عساکر، 60/153، 182


Share

Articles

Comments


Security Code