جدت پسندی یا اتباع سلف

آخر درست کیا ہے؟

جدت پسندی یا اتباع سلف

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

موجودہ زمانے میں یہ معاملہ بکثرت زیرِ بحث آتا ہے کہ دین کی تعبیر و فہم میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق چلا جائے یا سلف صالحین کی تحقیقات کی پیروی کی جائے۔ اس حوالے سے ہمارا جواب یہ ہے کہ دین کے اعتقادی و علمی پہلوؤں میں قرآن و حدیث کے معانی و مفاہیم کی تعیین میں حرفِ آخر سلف صالحین اور بزرگانِ دین کا فہم ہے، جبکہ اس فہم کی تسہیل وپیش کش میں جدید دور کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھا جائے۔ گویا یہاں مجموعی طور پر دو چیزیں ہیں، ایک فہمِ دین (یعنی دین کیا ہے؟ اس کو سمجھنا) اور دوسرا طریقہ تفہیمِ دین (یعنی لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا طریقہ کار)۔ فہمِ دین میں سلف کی اتباع لازم ہے اور طریقہ تفہیم میں وقت کے تقاضے پر عمل کرنا چاہیے اور یہ دونوں امور قرآن مجید سے ثابت ہیں۔

فہمِ دین میں اتباعِ سلف لازم ہونے کی تائید قرآن سے: فہمِ دین میں اتباعِ سلف کے متعلق قرآن کی رہنمائی اِن آیات سے ظاہر ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک کی ابتداء میں ہمیں یہ دعا تعلیم فرمائی:

(اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۵) صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْﴰ)

ترجمہ: ہمیں سیدھے راستے پر چلا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیا۔(پ1، الفاتحہ: 5، 6)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اِن انعام یافتہ نفوسِ قدسیہ کی تعیین خود قرآن مجید نے دوسرے مقام پر یوں بیان فرمائی:

(وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَۚ-)

ترجَمۂ کنزُ العرفان: اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔(پ5، النسآء:69)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ان دونوں آیات کے اجتماعی مفہوم سے یہ حقیقت اور حکم واضح ہوگیا کہ سلف صالحین کےراستے پر چلناحکمِ قرآنی ہے۔ اسی کے ساتھ دوسری تعلیم یہ دی گئی ہے کہ امت کے اجتماعی فہم کے خلاف جو عقیدہ و علم یا حکم و عمل اختیار کیا جائے، وہ باطل اور گمراہی کا پیش خیمہ ہوگا اور مسلمانوں کی اکثریت کے راستے سے ہٹنا گمراہی کا پہلا زینہ ہوگا، کیونکہ آدمی گمراہی کے راستے پر چلتا ہی تب ہے جب وہ بزرگان دین کا راستہ چھوڑتا، ان کی تحقیقات سے کنارہ کشی کرتا اور دین کا نیا مفہوم گھڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسری بات یعنی تفہیم ِ دین و طریقہ تفہیم میں جدت کے تقاضوں پر عمل کی تائید قرآن سے: ہم نے کہا کہ اعتقادی و علمی پہلوؤں میں قرآن و حدیث کے فہم میں حرفِ آخر سلف صالحین اور بزرگانِ دین کا فہم ہے، جبکہ اس فہم کی تسہیل و پیش کش میں جدید دور کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھا جائے۔ اس کے متعلق قرآن مجید میں ہے:

(اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ   )

ترجمہ: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو۔(پ14، النحل: 125)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیتِ مبارکہ میں حکمت و دانائی، اچھی نصیحت اور عمدہ انداز کی بحث کے معانی میں یہ بات شامل ہے کہ جس زمانے میں، جس جگہ، جن لوگوں کے سامنے جو طریقہ حکمت و دانائی کے تقاضوں کے مطابق ہے اسی کو اختیار کرکے خدا کے دین کی طرف دعوت دی جائے۔ لہٰذا سلف صالحین کے فہمِ دین کو حجت مانتے ہوئے قرآن و حدیث کی تعلیمات پہنچانے میں بہتر سے بہتر اور جدید سے جدید انداز اپنایا جائے۔

اب رہے وہ جدید اسکالرز جو سلف صالحین کی تحقیقات سے کنی کتراتے اور ناقص علم و عقل کے ساتھ اپنی ناقص فہم کو حرفِ آخر سمجھتے ہوئے ہر دوسری تیسری بات میں بزرگانِ دین کے بیان کردہ مفہوم کے برخلاف قرآن و حدیث کی تشریح کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم جو بیان کررہے ہیں، ٹھیک ٹھیک حتمی، قطعی اور صحیح بات یہی ہے، دوسرے الفاظ میں صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک لاکھوں علماء، فقہاء، ائمہ اور مجتہدین ٹھیک ٹھیک کی بجائے غلط غلط ہی دین کو سمجھتے اور بیان کرتے رہے اور اس غلط غلط ہی سے لاکھوں کتابیں بھردیں جبکہ ٹھیک ٹھیک والے صاحبان اب زمین پر اترے ہیں اور بزرگوں کے ٹھیک کو ٹھونک بجا کر غلط قرار دے کر خود کو ٹھیک ٹھاک قرار دےرہے ہیں۔

سلف صالحین کے فہم دین کو مسترد قرار دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ اہل باطل کایہ رویہ ہمیشہ سے جاری ہے مثلاً صحابہ کرام علیہمُ الرّضوان کادین کی تمام بنیادی باتوں پر اتفاق تھا، لیکن اسی زمانے میں خارجی نمودار ہوئے اور امت کا شیرازہ بکھیرنا شروع کردیا، پھر امت میں تفریق کے لئے اور بہت سارے فرقے نکل آئے جیسے قدریہ، جبریہ، معتزلہ وغیرہا۔ یوں ان گمراہ لوگوں نے امت میں جو مسلّمہ اور متفق علیہ چیزیں تھیں، ان میں اختلاف کیا اور سلف صالحین کے مقابلے میں اپنا فہمِ دین پیش کیا لیکن فضلِ خداوندی سے ان لوگوں کی تعدادہمیشہ کم رہی، جبکہ امت کی اکثریت بزرگانِ دین کے فہم کو حجت مان کر ان کی اتباع کرتی رہی کیونکہ قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات، صریح نصوص اور امت کے اجتماعی عمل سے یہ بات ہمیشہ ثابت ہوتی رہی کہ سلف صالحین کی مخالفت گمراہی کا سبب ہوتی ہے، اس بات کی اہمیت و عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر نمازمیں ہمیں

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۵) صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْﴰ

کے الفاظ سے سلف صالحین کے راستے پر چلنے کی دعا تعلیم فرمائی۔

عافیت و نجات کا راستہ یہی ہے کہ دینی جدت پسندوں یعنی دینِ جدید کو پسند کرنے والوں سے دور رہتے ہوئے پرانی راہ پر ہی چلتے رہیں ورنہ گمراہی کا راستہ کھل جائے گا جو ہرگز حق کا نہیں بلکہ خواہشِ نفس کا راستہ ہوگا۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو بہت واضح انداز میں بیان فرمایا ہے کہ سابقہ انبیاء علیہم الصّلوٰۃُ والسّلام کے زمانوں میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ اُن کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ایسے ناخلف اور نالائق لوگ سامنے آئے جنہوں نے انبیاء علیہم الصّلوٰۃُ والسّلام کے سچے پیروکاروں کا راستہ چھوڑ کر نفسانی خواہشات کی پیروی کو ترجیح دی،چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا:

(فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹))

ترجمہ: تو ان کے بعد وہ نالائق لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔(پ 16، مریم: 59)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

انبیاء علیہم الصّلوٰۃُ والسّلام کے بعد ان کی سچی پیروی کی بجائے نفسانی خواہشات کی پیروی کی صورت کیا تھی، اس کے متعلق نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود تفصیل بیان فرمائی، چنانچہ ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس امت میں بھی جو نبی بھیجا اس نبی کے لئے اس امت میں سے کچھ مدد گار اور اصحاب ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریقۂ کار پر کار بند رہتے، پھر ان صحابہ کے بعد کچھ نالائق لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے کام کے خلاف بات کی اور جس کا حکم دیاگیا اس کے خلاف کام کیا۔(مسلم، ص 49، حدیث: 179)

سلف صالحین کے طریقے چھوڑ کر اپنی منوانے کی کوشش کرنے والے خواہشِ نفس کی کس طرح پیروی کرتے ہیں؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سہل پسند، نفس پرست لوگوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ جب تک بزرگان دین کے کام کی تحقیر نہیں کریں گے اور لوگوں کی نظر میں اسے کم تر نہیں دِکھائیں گے، تب تک اپنی بات نہیں منوا سکیں گے، کیونکہ یہ فطری سی بات ہے کہ جو تحقیق پچھلے ہزاروں محدثین، مفسرین اور علماء نے فرمائی،اس کے مقابلے میں جب کوئی نئی نویلی تحقیق مارکیٹ میں آئے گی، تو لوگ صاف کہیں گے کہ بھائی! بزرگوں کے مقابلے میں تمہاری بات کیوں مانیں جبکہ بزرگانِ دین صاف ذہن، صاف دل، صاحبِ عمل، صاحبِ تقویٰ ہونے کے ساتھ اعلیٰ درجے کے صاحبِ علم تھے اور وہ بھی ایک آدھ نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں۔ اب ایسی نفیس سوچ کے ہوتے ہوئے اپنی نئی بات منوانا اور اپنے معتقد و متبعین تیار کرنا بہت مشکل ہے، ایسی صورت میں اپنی بات رائج کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ پہلے لوگوں کی ذہن سازی کی جائے کہ پچھلوں نے جو کام کیا، وہ اگرچہ اچھا تھا لیکن جدید زمانے کے تقاضے کچھ جدا ہیں، اب دین کی جدید تشریح ہونی چاہیے۔ یوں جدید تشریح کے نام پر دین ہی جدید بناکر پیش کردیتے ہیں۔ جب یوں وسوسہ اندازی کی جائے گی تو کچھ لوگوں کے ذہن میں اسلاف کی تحقیقات پر شکوک پیدا ہوجائیں گے اور جدت پسندوں کی بات قبول کرنے کے لئے ذہن تیار ہوجائے گا۔ لہٰذا جو سلف صالحین کے دامن سے لپٹا رہا وہ نجات پاجائے گا اور جو ادھر ادھر منہ مارنے کی کوشش کرے گا وہ آوارہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بزرگوں کے دامن سے مضبوط وابستگی عطا فرمائے اور ہر قسم کی گمراہی سے بچائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code