ہر گھرانے والے بڑے اَرمان سے بہو بیاہ کر لاتے ہیں کہ ہمارے گھر کے صحن میں خوشیوں کے پھول اپنی خوشبوئیں بکھیریں گے، لیکن جب تَوَقُّعات پوری نہیں ہوتیں تو اُن کے ارمانوں پر اوس پڑ جاتی ہے۔ اُن کے گھر کو امن کا گہوارہ بنانے میں بیاہ کر لائی جانے والی بہو کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اگر بہو حسنِ مُعاشَرَت،سلیقہ شِعاری،عزّت اَفزائی ، سمجھداری اور ملنساری سے کام لے تو ساس سسر زبانِ حال سے کہہ اٹھتے ہیں:” بہو کو ایسا ہوناچاہئے،“ لیکن اگر بہو زبان کی تیز، کج فہم،مزاج نہ سمجھنے والی، غصیلی، پھوہڑ، فضول خرچ، ضدی، کسی کو گھاس نہ ڈالنے والی اور خودغرض ہو تو اکثر ساس سسر زبانِ قال سے کہہ اٹھتے ہیں:”بہو کو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔“ اب فیصلہ بہو کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کیسی بننا چاہتی ہے۔ یہاں اِسلامی و اَخلاقی تعلیمات اور بزرگانِ دین کے فرامین و نصائح کی روشنی میں مرتب کئے ہوئے چند مدنی پھول پیش کئے جاتے ہیں، امید ہے کہ اگر بہو ان پر عمل پیرا ہو تو اُس کے سسرال والے کہہ اٹھیں گے :”بہو کو ایسا ہونا چاہئے۔“کسی کہنے والے نے زندگی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے (1)شادی سے پہلے اور (2)شادی کے بعد۔ یہاں ذکر شادی کے بعد کی زندگی کا ہے،چنانچہ(1) شادی کے بعد عورت بہو بن کر نئے گھر، نئے ماحول اور نئے افراد میں آتی ہے، سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں بھی جائیں پہلے وہاں کا ماحول، قوانین اور اصول و ضوابط سمجھے جائیں، بینک (Bank) میں جانے والا مینجر سے چیک (Cheque) کیش(Cash) کروانے کی ضد کرے یا ہوٹل میں جانے والا استقبالیہ مکتب (Reception) کے بجائے ہوٹل کے مالک سے معلومات لینے کی ضد کرے تو اس کی مراد پوری نہ ہوگی، لہٰذا بہو کو نئے گھر میں آکر سب سے پہلے گھر کے افراد کی طبیعت، کھانے پینے کے اوقات و لوازمات سمجھنے چاہئیں۔ (2)عموماً گھروں کا نظامِ حکومت ماؤں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لہٰذا بہو کو گھر کے معاملات و حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، جتنا کام سونپا جائے تَن دَہی سے کرے اور ہر مُعامَلے میں ساس اور نندوں سے مشورہ کرے۔ (3)سسرال میں کبھی بھی میکے کی امیری اور اپنی مَن مرضی کے قصے نہ سنائے اور نہ ہی سسرال کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے، کیونکہ کوئی بھی چھوٹے باپ کا بننا پسند نہیں کرتا۔ (4)گھر کے نظام، کھانے کے انداز، سامان کی ترتیب، دروازوں اور پردوں وغیرہ کا رنگ نامناسب معلوم ہو تو برملا تنقید کرنے کی بجائے پیار محبت اور مشاورت کے ساتھ درست کرنے کی کوشش کرے، بلاوجہ کی تنقید نقصان کرتی ہے۔ (5)اپنے والدین کے گھر میں جیسا بھی کھاتی تھی، اب اُس کا گھر یہی (سسرال) ہے اور اِسی گھر کے تَوے کی روٹی کھانی ہے، لہٰذا کسی کے تیکھا یا پھیکا پسند ہونے پر اعتراض کرکے لڑائی جھگڑے کا دروازہ کھولنے کے بجائے خود کو اس کھانے کا عادی بنائے کہ ایک کا بدلنا سب کے بدلنے سے آسان ہے۔ (6) کسی غلطی پر اگر ساس یا سسر ڈانٹ دیں تو اپنے ماں باپ سمجھتے ہوئے برداشت کرے اور فراخدلی سے غلطی کا اعتراف کرکے اُن کا دل جیتنے کی کوشش کرے، جوابی غصّے کا مظاہرہ کرنے سے ”نبھاؤ“ مشکل ترین ہے۔ یقین جانئے!نقطۂ نظر اور سوچ تبدیل ہونے سے بھی بڑی حد تک مسائل حل ہوجاتے ہیں۔(فرضی حکایت)ایک شخص سڑک پر کھڑا تھا،اچانک اس کے ٹخنے پرزور سے کوئی چیز لگی، اس نے بڑے غصّے سے پیچھے دیکھا، لیکن دیکھتے ہی اُس کا سارا غُصّہ محبت و خداترسی میں بدل گیا، کیونکہ اس کے سامنے ایک نابینا شخص تھا جو بےچارہ چھڑی کے ذریعے راستہ ٹٹول رہا تھا، اب بجائے بدلہ لینے کے، اِسی شخص نے اُس نابینا کو سڑک بھی پار کروادی، اِسی طرح جس دن بہو ساس کو اپنی ماں سمجھنا شروع کردےگی اور اُس کے افعال کو اپنی ماں کا طرزِعمل سمجھے گی،مسائل حل ہوجائیں گے، وگرنہ جو اپنی ماں کی کڑوی باتیں برداشت کرلیتی تھی، ساس کی میٹھی باتیں بھی کڑوی محسوس کرے گی۔
(جاری
ہے۔۔۔ دوسرا حصہ آئندہ شمُارہ میں ملاحظہ کیجئے)
Comments