4 جُمادَی الاُخریٰ 1438ھ بروز پیر بعد نمازِ عشا ”مدنی چینل“ کے براہِ راست (Live) سلسلہ ”میرے ربّ کا کلام“ سے فارغ ہو کر سوئے مَطار (ائیر پورٹ) جانے کی تیاری تھی، آج رات مجھے ایسے مُلک کی طرف سفر کرنا تھا جہاں ایک ”اَہَم شخصیت“ کی صحبت بابرکت کا شرف حاصل ہونا تھا، میری نیت تھی کہ ان کے پاس حاضر ہو کر سَحری کرنے اور روزہ رکھنے کی سعادت حاصل کروں گا۔
اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بابُ المدینہ (کراچی) سے بذریعہ جَہاز روانہ
ہوا، دورانِ سفر ایک ایسے عاشقِ رسول سے ملاقات ہوئی جو عُمرے پر جا رہے تھے، یوں
تو وہ مجھے پہچانتے تھے مگر ملاقات پہلی بار ہوئی تھی، انہوں نے بتایا کہ میں
امیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ کی
حج و عمرہ کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب ”رَفِیْقُ الْحَرَمَیْن“ گھر سے لانا بھول گیا ہوں اور مجھے تو
احرام باندھنا بھی نہیں آتا۔ اللہ کے فضل سے یہ کتاب میرے ٹیبلٹ (Tablet) میں موجود تھی، میں
نے ”رَفِیْقُ الْحَرَمَیْن“ کے وہ صفحات دکھائے جن کی انہیں ضرورت تھی، انہوں نے
اپنے موبائل کے ذریعے ان صفحات کی تصاویر لے لیں۔ اس میں خاص لُطف کی بات یہ تھی
کہ مجھے اپنے حج و عمرہ کے اَیَّام یاد آگئے۔ کیا پُر بہار دن تھے وہ!
اسی گُفتگو وغیرہ کے دوران میرا مطلوبہ ملک آگیا، میں
جَہاز سے اترا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ جیسے ہی میں سَحری سے کچھ دیر قبل
اس عظیم عِلمی و رُوحانی شخصیت کی بارگاہ میں پہنچا تو انھوں نے پُرتَپاک انداز
میں خوش آمدید کہا، یہ ان کی ذَرَّہ نوازی تھی ورنہ مَنْ آنَمْ
کہ مَنْ دَانَمْ (یعنی میں
جانتا ہوں کہ میری اوقات کیا ہے)۔ میرا ان کے ساتھ جو کم و بیش ایک دن گزرا اس میں
سیکھنے کے لئے بہت کچھ تھا، یہ بات سمجھ میں آئی کہ عبادت، ریاضت اور نیکیاں کمانے
کا مَدَنی ذہن ہو تو تنہائی یا ایک ہی رفیق کے ساتھ، سفر کی حالت میں بھی نیکیوں
بھرے ایام گزارے جاسکتے ہیں۔
اُن کے معمولات کچھ یوں تھے:٭حتی الْاِمکان روزانہ روزہ
رکھنے کے لئے سحری و افطاری کرنا اور بھوک سے کم کھانا ٭قِبلہ رو بیٹھنے کا اہتمام
کرنا ٭بذریعہ فون عیادت، تعزیت اور دلجوئی جیسی بھلائیاں اور نیکیاں بجالانا
٭امراض پر صبر کرنا ٭اصلاحِ اُمّت کے جذبے کے تحت تحریری کام کرنا ٭خیر خواہیِ
اُمّت کے لئے غور و خوض اور مدنی مشورے دینا ٭ اسلامی بھائیوں کے لئے لبوں پر
مُسکراہٹ اور دل غمِ آخرت میں ڈوبا ہونا ٭انتہائی اَہَم بات زَبان سے کرنا ورنہ
اشاروں کے ذریعے سمجھانا، یوں زَبان کا قفلِ مدینہ لگانا ٭پَنْجگَانہ نماز کے ساتھ ساتھ نوافل مثلاً نمازِ تَہَجُّد، اِشراق و چاشت اوراَوَّابِین کا اہتمام
کرنا ٭نماز کامل اطمینان اورسُکون سے ادا کرنا ٭گھر میں بھی عمامہ شریف سجائے
رکھنا ٭رابطہ کرنے والوں کو بَروَقت رِپلائی دینا ٭انٹرنیٹ کا صرف ضروری استعمال
مثلاً ای میل (E Mail)
وغیرہ کا جواب دینا اور نیکی کی دعوت پر مبنی مَدَنی گلدستے بھیجنا ٭گھر کی
دیواروں اور دروازوں پر دعائیں اور ا َوراد و وَظائف لگانا تاکہ پڑھنے میں آسانی
رہے ٭گھر سے نکلتے ہوئے اچھی اچھی نیتیں کرنا مثلاً دورانِ سفر آنکھوں کی حفاظت
کروں گا، پریشان نظری سے بچوں گا وغیرہ ٭اس دوران انگلی میں ڈیجیٹل تسبیح رکھنا
تاکہ زَبان ذِکر و دُرُود سے تَر رہے ٭ہر رات سُوْرَۂ
یٰسٓ اور سُوْرَۃُ
الْمُلْک پڑھنے کا اہتمام کرنا
٭ملنے والوں کے ساتھ انتہائی ملنساری اور دلجوئی کا برتاؤ کرنا۔ یہ تقریباً ڈبل
12 گھنٹوں کا آنکھوں دیکھا حال ہے، یہ عظیم عِلمی و رُوحانی شخصیت کوئی اور نہیں،
میرے پیر و مرشد، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس
عطّار قادری رضوی دَامَتْ
بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مبارک ذات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ جس طرح یہ عبادت و ریاضت اور نیکی کی
دعوت عام کرنے کے جذبے کے ساتھ شَب و روزگزار رہے ہیں، غیبت و بدگمانی اور دیگر
جملہ بُرائیوں سے بچنے کی ترکیبیں فرما رہے ہیں، اے کاش! ہم بھی اپنی زندگی اسی
طرح بَسر کریں، مگر افسوس کہ نفس و شیطان ہمیں گھیر گھار کر نیکیوں سے دُور کرتے
ہوئے بُرائیوں اور گناہوں کے گھنے جنگل میں لے جاتے ہیں جہاں ہمیں کچھ سُجھائی
نہیں دیتا، اے کاش! ہم نفس و شیطان پر قابو پانے والے بن جائیں، نیکیوں پر
اِستقامت اختیار کر لیں، میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ کیا اس انداز سے ہمارا
کوئی ایک دن بھی گزرا جس میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوں گناہوں کا نام و نشان نہ
ہو؟ آہ! ہمارا کیا بنے گا؟
اللہ اللہ کے نبی سے
فریاد ہے نفس کی بدی سے
دن بھر کھیلوں میں خاک اڑائی
لاج آئی نہ ذروں کی ہنسی سے
فریاد ہے اے کشتیِ اُمّت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری
Comments