جس طرح قراٰنِ پاک پر ایمان لانا ہرمُکَلَّف (عاقِل،بالِغ، مسلمان)پر فَرْض ہے اسی طرح اُن کُتُب پر اِیمان لانا بھی ضروری ہے جو اللہتعالٰی نے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے قَبْل انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام پر نازِل فرمائیں، اَلْبَتَّہ اُن کے جو اَحکام ہماری شریعت میں مَنْسُوخ ہو گئے اُن پرعمل دُرُست نہیں مگر اِیمان ضروری ہے مثلاً پچھلی شریعتوں میں بیتُ الْمقد س قِبْلَہ تھا ، اس پر ایمان لانا تو ہمارے لئے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیتُ الْمقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں، (یہ حکم)مَنْسُوخ ہو چکا۔ (خزائن العرفان، پ1، بقرہ،تحت الآیۃ:4) ٭قراٰنِ کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سےاُس کے اَنْبِیَاپر نازل ہوا اُن سب پر اِجمالاً (مختصراً)ایمان لانا فرضِ عین ہے۔(خزائن العرفان، پ1، بقرہ،تحت الآیۃ:4)اِس طرح کہ جو کتابیں اللہتعالٰی نے نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں کے پاس بطریقِ وحی بھیجیں بے شک و شبہہ سب حق و صدق اور اللہ کی طرف سے ہیں۔(خزائن العرفان، پ3، بقرہ،تحت الآیۃ:285)٭قراٰن شریف پرمختصراًیوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بَرْحَق ہے۔جبکہ قراٰن کا تفصیلاً علم حاصل کرنافرضِ کفایہ ہے۔(ملخص ازصراط الجنان،ج1، ص68) ٭ اللہتعالٰی نے بعض نبیوں پر صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں، جن کی تعدادتقریباً104ہے۔(فیضانِ سنت،ج1، ص4) اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: ’’تَوْرَات‘‘حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’زَبُوْر‘‘حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر، ”اِنجیل“ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’قرآنِ عظیم‘‘ کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول حضور پُر نور احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم پر۔ (بہار شریعت،ج1، ص29) ٭قراٰنِ پاک تبدیلی سے محفوظ ہے، چونکہ یہ دین ہمیشہ رہنے والا ہےلہٰذا قراٰنِ عظیم کی حفاظت اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اپنے ذِمّہ رکھی جبکہ’’اگلی کتابوں کی حِفاظت اللہ تعالٰی نے اُمّت کے سِپُرد کی تھی، اُن سے اُس کا حِفظ(تحفُّظ)نہ ہو سکا، کلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا اُن کے ہاتھوں میں وَیسا ہی باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تَحْریفیں (تبدیلیاں) کر دیں، یعنی اپنی خواہش کے مطابِق گھٹا بڑھا دیا۔ لہٰذا جب کوئی بات اُن کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ہماری کِتاب (قراٰنِ مجید)کے مطابِق ہے، ہم اُس کی تَصدیق کریں گے اور اگر مخالِف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تَحرِیفات (تبدیلیوں) سے ہے اور اگرمُوافَقَت مخالَفَت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تَصْدِیق کریں نہ تَکْذِیب(نہ درست مانیں نہ جُھٹلائیں)بلکہ یوں کہیں کہ:اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۔ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور اُس کے فِرِشْتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ہمارا اِیمان ہے۔“(بہار شریعت،ج1،ص30)٭اس(یعنی قراٰن) میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بَیشی مُحال (ناممکن)ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سورتیں یا آیَتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا، قطعاً کافر ہے۔(بہار شریعت،ج1، ص31)
(حکایت)قراٰن میں تَحْرِیف کا اَنْجام: حضرتِ سیِّدُنااحمد بن محمد یمانی
قُدِّ سَ سرُّہُ النُّورانیفرماتے ہیں:میں نے صنعاء شہر میں ایک شخص کو دیکھا، لوگ اس
کے گرد جمع تھے ۔میں نے اس کے متعلق معلومات کیں تو پتا چلا کہ وہ ماہِ رمضان میں
لوگوں کی امامت کرتا ہے۔اس کی آواز بہت پیاری تھی،وہ انتہائی خوبصورت اور دلکش
آواز میں قراٰن پڑھ رہا تھا۔جب وہ اس آیتِ مبارکہ پر پہنچا:﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ ﴾
تواس نے پڑھا:’’اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰۤئِکَتَہ
یُصَلُّوْنَ عَلٰی عَلِیِّ النَّبِیِّ ‘‘(یعنی اس نے’’عَلَی النَّبِیِ‘‘لفظ’’عَلِیّ‘‘کے اضافے کے ساتھ’’عَلَی عَلِیِّ النَّبِیِّ ‘‘ پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہوگیا
کہ ’’ اللہ اور اس کے
فرشتے درود بھیجتے ہیں حضرت علیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہپر جونبی
ہیں‘‘مَعَاذَاللہ) تو وہ شخص
اُسی وقت گونگا،مَعْذور اور اَندھا ہوگیااور اُسے کوڑھ اوربَرَص کی بیماری بھی لگ
گئی ۔ (القول البدیع،ص87)
Comments