نرمی

نَرْمی کی اہمیت  جس طرح سونا نَرْم ہو کر زیور، لوہا نرم ہو کر ہتھیار اور مٹی نرم ہوکر کھیتوں کے لَہلَہانے کا سبب بنتی ہے اسی طرح اِسلامی تعلیمات کے مطابق کی جانے والی ”نرمی“ ایسی خوبی ہے جس کی بدولت  انسانی رَوَیّے میں رحمت، شفقت، شائستگی، مہربانی، آسانی،عَفوو دَرگُزَر اور بُردْباری جیسےخوشبو دار پھول کھلتے ہیں جبکہ”بے جاسختی“سے انسان کی طبیعت میں بے رَحمی، سنگ دلی ، ظلم اور زیادتی  کے کانٹے اُگتے ہیں۔حقیقی نرمی دل کا نَرْم ہونا ہے۔ جب بندۂ مؤمن کا قلب نَرْم ہوتا ہے تو اسے   اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا قُرْب ملتا ہے جس کی برکت سے وہدنیا و آخرت کی بھلائیاں پاتا ہے۔قراٰنِ پاک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نبیِ پاک   صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دل کی نرمی کو اپنی رحمت قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:﴿فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ ترجمۂ کنزُالایمان:تو کیسی کچھ   اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب! تم ان کے لئے نرم دل ہوئے۔(پ4،اٰلِ عمران: 159)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نرمی کے فضائل   دو فرامینِ مُصطَفٰے    صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : (1)بیشک   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نرمی فرمانےوالاہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جوسختی پر عطانہیں فرماتا  بلکہ نرمی کے سوا کسی بھی شے پر عطا نہیں فرماتا۔ (مسلم ، ص 1072، حدیث: 6601) (2)اللہ عَزَّوَجَلَّ اس شخص پر رحم فرمائےجو بیچے تو نرمی کرے، خریدے تو نرمی کرے اور جب اپنے حق کا تقاضا کرے تب بھی نرمی کرے۔(بخاری،ج2، ص12،حدیث:2076) غور کیجئے! جب خرید و فروخت کی چند لمحوں کی ملاقات میں بھی شریعت کو نرمی مطلوب ہے تو وہ افراد جن سے برسوں کا ساتھ ہو اُن سے  تو اورزیادہ نرمی چاہیے۔ اس لئے رشتہ دار ہو یا اجنبی، بڑا ہو یا چھوٹا، دکاندار ہو یا چوکیدار،ملازم ہو یا افسرہمیں ہر ایک سے نرمی سے پیش آنا چاہیے۔

نرمی اور ہمارا معاشرہ  ہمارے معاشرے میں نرمی کی جگہ بے جا سختی نے لے لی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں  کی ایک تعداد سے خیر خواہی، خدا ترسی(رحم دلی )اور حسنِ سلوک کا جذبہ بھی دم توڑ رہا ہے۔ ہمارے مزاج  اس بجھتی ہوئی چنگاری کی مانند ہوچکے ہیں جسے  ہوا کاہلکا سا جھونکا دوبارہ آگ میں تبدیل کردیتا ہے۔بات بات پر جھگڑنا،چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر آگ بگولہ ہوجانا اور لڑنے مرنے پر تیار ہوجانا،یہ سب ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جا رہاہے جس کا بنیادی سبب نرمی کا ختم ہو جانا ہے۔ بعض گھرانوں میں ایک سے بڑھ کر ایک سخت مزاج ہوتا ہے، یہ اچھی بات نہیں۔ حدیثِ پاک میں ہےاللہ  عَزَّوَجَلَّ   جب کسی گھر والوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تواُن میں نرمی پیدا فرما دیتا ہے۔ (مسند احمد،ج9، ص345 حدیث:24481) ایک اور مقام پر فرمایا گیا:جو نرمی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ (مسلم ، ص 1072، حدیث: 6598) گویا نرمی تمام بھلائیوں کی اَصْل ہے۔ یہ ایسی صفت ہے جو انسان کو رحم پر  اُبھارتی،ظلم سے روکتی، تَکَبُّر سے بچاتی اور عاجزی  پر اُکساتی ہے۔ زندگی کا ویران کھنڈر نرمی کے سبب عالیشان محل میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

نرمی کیسے حاصل ہو؟ نرمی پیدا کرنے کے لیے لازمی ہے کہ دل کو نرم کیجیے کیونکہ دل انسانی اعضاء کا بادشاہ ہے، جب یہ نرم ہو گیا تو آپ کے کِردار، گُفْتَار اور اَطْوار میں خود ہی نرمی پیدا ہو جائے گی۔ زبان  اور پیٹ کا قفلِ مدینہ لگانا ( یعنی ضرورت کے مطابق  گفتگو کرنا اوربھوک سے کم کھانا)،موت کو یادکرنا، اچھی صحبتیں اپنانا اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنادل کو نرم کرتے ہیں۔


Share