سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرع متین اس
مسئلے کے بارے میں کہ عام طور پر نابالغ چھوٹے بچے دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے
ہیں تو کیا نابالغ بچوں کا یہ چیزیں خریدنا درست ہے؟
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:سمجھ دار نابالغ بچہ اپنے ولی کی اجازت سے اشیاء کی
خرید و فروخت کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ غبنِ فاحش یعنی مارکیٹ ریٹ سے مہنگی چیز نہ خریدی ہو۔([1]) صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ
رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں
لکھتے ہیں:”نابالغ کے تصرّفات تین قسم ہیں: نافعِ مَحْض یعنی وہ تصرّف جس میں صرف
نفع ہی نفع ہے جیسے اِسلام قَبول کرنا۔ کسی نے کوئی چیز ہِبَہ کی (تحفہ دیا) اس کو
قبول کرنا اس میں ولی کی اجازت دَرْکار نہیں۔ ضارِّ مَحْض جس میں خالِص نقصان ہو
یعنی دنیوی مَضَرَّت ہو اگرچہ آخرت کے اعتبار سے مفید ہو جیسے صدقہ و قرض، غلام کو
آزاد کرنا، زوجہ کو طلاق دینا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اِجازت دے تو بھی نہیں
کرسکتا بلکہ خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تَصَرُّفات کو نافِذ
کرنا چاہے نہیں کرسکتا۔ اس کا باپ یا قاضی ان تصرّفات کو کرنا چاہیں تو یہ
بھی نہیں کرسکتے۔ بعض وجہ سے نافع (نفع مند ) بعض وجہ سے ضار (نقصان دہ) جیسے بیع،
اِجارہ، نکاح یہ اذنِ ولی (ولی کی اجازت) پر
موقوف ہیں۔ نابالغ سے مراد وہ ہے جو خرید و فروخت کا مطلب سمجھتا ہو جس کا بیان
اوپر گزر چکا اور جو اتنا بھی نہ سمجھتا ہو اوس کے تَصَرُّفات ناقابلِ
اعتبار ہیں۔“(بہارِ شریعت،ج3، ص204، مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کرایہ پر لی ہوئی
چیز آگے کرایہ پردینا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے
کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں فریٹ فارورڈنگ (Freight Forwarding)کا کام کرتا ہوں جس میں بحری جہاز کے کنٹینرز شِپِنگ
کمپنی سے کنٹینر کرائے پر لے کر آگے اسے پارٹی کو کرائے پر دیتے ہیں۔کمپنی سے ہم
کسی مال کی ایکسپورٹ کے لئے مثلاً 10,000روپے کرائے پرلیتے ہیں، اور پارٹی کو یہی
کنٹینر 12,000 روپے میں دیتے ہیں۔ مذکورہ کرائے پر شپنگ کمپنی چاہے دو دن میں
بھیجے یاپانچ دن میں، یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ ہمارے پاس کنٹینر کو پہنچا
دے، نیز مال چھوڑنے کے بعد شپنگ کمپنی کا کام ہوتا ہے کہ اس کنٹینر کو کہاں بھیجنا
ہے،پارٹی اور ہمارا اب اس کنٹینر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پارٹی کو جو ہم زیادہ
کرائے پر دیتے ہیں،اس میں ہم کنٹینر کی سِیل (Seal)
کے اَخْراجات بھی شامل کرتے ہیں کیونکہ ہم کنٹینر کی سِیل کے اَخْراجات شپنگ کمپنی
کو الگ دیتے ہیں لیکن پارٹی سے ہم اس سِیل کرانے کےالگ پیسے نہیں لیتے،تو
کیا اس صورت میں پارٹی کو جب ہم کنٹینر کرائے پر دیتے ہیں تو کنٹینر کا کِرایہ اور
سِیل کے اخراجات ملا کر مثلاً 12,000 روپے میں دے سکتے ہیں، جبکہ ہم نے شپنگ کمپنی
سے وہی کنٹینر 10,000 روپے کا کرائے پر لیا ہوتا ہے اورتقریباً 500 روپے میں سِیل
کے اخراجات میں دئیے ہوتے ہیں۔
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی
صورت میں آپ پارٹی کو کنٹینرکا کِرایہ اور اسے سِیل کرنے کے اخراجات کے ساتھ ملاکر
کنٹینر کو آگے زیادہ کرائے پر دے سکتے ہیں۔کیونکہ کرائے پر لی ہوئی چیز آگے کرائے
پر دے سکتے ہیں،جبکہ اتنے ہی کرائے پر دی جائے جتنے پر لی تھی،یا کم کرائے پر دی
جائے اور اگر زیادہ کرائے پر دینا چاہیں تو اس وقت دے سکتے ہیں جب درجِ ذیل تین
صورتیں پائی جائیں: ایک:یہ کہ کنٹینر میں کچھ کام کرا دیں۔ دوسری:یہ کہ آپ
نے جس جنس کے کرائے پر کنٹینر لیا اس کے خلاف کسی اور جنس کے کرائے پر آگےدیں۔اور
تیسری: یہ کہ کنٹینر کے ساتھ کوئی اور چیز بھی کرائے پر دیدیں اور دونوں کا کرایہ ایک ہی مقرر
کریں۔([2])
پوچھی گئی صورت میں آپ کی طرف سے سِیل کی صورت میں اضافہ کرنا پایا گیا
تو زیادہ کرایہ پر آگے دے سکتے ہیں۔
صَدْرُ الشَّرِیعَہ، بَدْرُ الطَّرِیقہ مُفتی اَمجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:”مُسْتَاجِر(کرایہ دار)نے
مکان یا دکان کوکِرایَہ پر دیدیا اگر اُتنے ہی کِرایَہ پردیا ہے جتنے میں خود لیا
تھا یاکَم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے اُسے صدقہ کردے ہاں
اگرمکان میں اِصلاح کی ہو اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں
یاکرایہ کی جِنْس بدل گئی مثلاً:لیا تھا روپے پر،دیا ہو اشرفی پر، اب بھی
زیادتی جائز ہے۔ جھاڑودیکرمکان کو صاف کرلینایہ اِصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم
جائز ہوجائے اِصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو
مثلاًپلاستر کرایا یا مونڈیر بَنوائی۔(بہار شریعت،ج3، ص124، مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قصّاب کا پیشہ اختیار کرنا جائز ہے
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شَرْعِ مَتِیْن
اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم گوشت کا کاروبار کرنا چاہتے ہیں کیا یہ کام جائز
ہے؟
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:جی ہاں! گوشت کا کاروبار کرنا جائز ہےاور دیگر تمام
کاموں کی طرح اس کام میں بھی ضروری ہے کہ تجارت کے شرعی اَحکام پر مکمل طریقے سے
عمل کریں دھوکہ، جھوٹ، کم تولنا وغیرہ نہ پایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جانور
خود ذَبْح کرتے ہوں توشرعی طریقے سے ذَبْح کرنا آتا ہو۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے:”ذَبْحِ بَقَر و قَطْعِ شَجَر(گائے ذبح کرنے اور درخت
کاٹنے) کے پیشے میں مُضایَقہ نہیں، یہ جو عوام میں بنامِ حدیث مشہور ہے کہ ”ذَابِحُ الْبَقَرِ وَ قَاطِعُ الشَّجَرِ (گائے ذبح کرنے والا
اور درخت کاٹنے والا) جنت میں نہ جائے گا“ محض غلط ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،ج23، ص539، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اللہ کا مہینا
فرمانِ
مصطَفٰےصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:رَجَبٌ
شَہْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَشَعْبَانُ شَہْرِیْ وَ رَمَضَانُ شَہْرُ اُمَّتِیْ۔ یعنی
رَجب اللّٰہ تعالٰی کا مہینا اور شعبان میرا مہینا اوررَمضان میری
اُمت کا مہینا ہے۔(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۲۷۵ حدیث ۳۲۷۶)
[1]۔ ”اَلصَّبِیُّ الْعَاقِلُ اِذَا بَاعَ اَوِ اشْتَرَی اِنْعَقَدَ بَیْعُہ وَشِرَاؤُہ مَوْقوفاً عَلٰی اِجَازَۃِ وَلِیِّہٖ اِنْ کَانَ لِنَفْسِہٖ وَنَافِذاً بِلَا عُھْدَۃٍعَلَیْہِ اِنْ کَانَ لِغَیْرِہٖ بِطَرِیْقِ الْوِلَایَۃِ“(ردالمحتار،ج7، ص244)
[2]۔الجوہرۃ
النیرہ میں
ہے: ”وَاِنْ اَجَّرَھَا بِاَکْثَرَ مِمَّا اسْتَاْجَرَھَا جَازَ
، اِلَّا اَنَّہ اِذَا کَانَتِ
الاُجْرَۃُ الثَّانِیَۃُ مِنْ جِنْسِ الْاُوْلٰی لَا یَطِیْبُ لَہ الزِّیَادَۃُ
وَیَتَصَدَّقُ بِھَا، وَاِنْ کَانَتْ مِنْ خِلَافِ جِنْسِھَا طَابَتْ لَہ
الزِّیَادَۃُ، فَاِنْ کَانَ زَادَ فِی الدَّارِ شَیْئاً کَمَا لَوْ حَفَرَ فِیْھَا
بِئْراً اَوْطَیَّنَہَا او اَصْلَحَ اَبْوَابَھَا اَوْ شَیْئاً مِّنْ حِیْطَانِھَا
طَابَتْ لَہُ الزِّیَادَۃُ“(الجوہرۃ
النیرہ شرح قدوری،کتاب الاجارۃ،ج1، ص308،309)
Comments