جو برائیاں ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ان میں سے ایک ”جُوا“ بھی ہے، جس کے جال میں پھنس کر کئی لوگ بربادہوچکے ہیں۔ عادی جُواریوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے مَحض تفریح کے لئے چھوٹی چھوٹی رقمیں لگانے سے جوا کھیلنے کا آغاز کیامگر رَفتہ رَفتہ اس ’’ناسور ‘‘ کے ایسے عادی ہوئے کہ اب جُوئے کی لت چھوڑنا ان کے لئے دشوار ہو گیا۔ جوئے میں انسان بہت کچھ ہارجاتا ہے چنانچہ جواری مالی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں،کچھ نہیں سُوجھتا توسود پر قرض لیتے رہتے ہیں اور ایک لمباہاتھ مارنے کے چکر میں جوئے کی دلدل میں مزید دھنس جاتے ہیں،اپنا وقت جوئے کے اڈوں میں برباد کرتے ہیں اوروہاں پر پھیلنے والی مزید برائیوں نشہ،چوری چکاری وغیرہ میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کئی جواری اپنی نوکری یا کاروبار سے بھی غافل ہوجاتے ہیں،انجام کار نوکری یا کاروبار ہاتھ سے جاتا رہتا ہے، ان کی گھریلو زندگی تباہ ہوکررہ جاتی ہے ،عزت برباد ہوجاتی ہے ، ٹینشن کے مارے یہ بیمار ہوجاتے ہیں،بعض اوقات جوا کھیلنے کی پاداش میں پولیس کے ہاتھوں گِرِفْتار بھی ہوجاتے ہیں،یوں ان کو جوئے کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ،جب انہیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا تو اپنی زندگی سے اتنا مایوس ہوجاتے ہیں کہ(مَعَاذَاللہعَزَّ وَجَلَّ) خودکشی جیسے حرام کام کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔(ہم اللہعَزَّ وَجَلَّ سے رحمت اور عافیت کا سوال کرتے ہیں)
جُوئے کی
تعریف جُوئے کو عربی میں قِمار کہتے ہیں، حضرت میرسیّد شریف جُرجانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّبّانی لکھتے
ہیں:ہر وہ کھیل جس میں یہ شر ط ہو کہ مَغْلُوب(یعنی ناکام ہونے والے)کی کوئی چیز
غالِب (یعنی کامیاب ہونے والے )کو دی جائے گی یہ”قِمار“ (یعنی جُوا) ہے۔(التّعریفات، ص126)
قراٰنِ پاک میں ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ
كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ (پ2،البقرۃ:219)ترجمۂ
کنزالایمان: ”تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ
ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔“
خزائن
العرفان میں ہے: نفع تو یہی ہے کہ شراب سے کچھ سُرور پیدا ہوتا ہے
یا اس کی خریدو فروخت سے تجارتی فائدہ ہوتا ہے اورجوئے میں کبھی مُفْت کا مال ہاتھ
آتا ہے اور گناہوں اور مفسدوں کا کیا شمار! عقل کا زوال، غیرت و حَمِیَّت کا زوال،
عبادات سے محرومی، لوگوں سے عَدَاوَتیں ،سب کی نظر میں خوار ہونا ،دولت و مال کی
اِضاعت(یعنی بربادی)۔(خزائن العرفان)
جوئے کا شرعی
حکم اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلِ سنّت،امام اَحمد رضا خان فتاویٰ رضویہ جلد 21
صَفْحَہ 156پر فرماتے ہیں:”جُوا بھی بَنَصِِّ قَطْعِیِ قرآن حرام ہے۔“ جبکہ جوئے
سے حاصل ہونے والی رقم بھی حرام ہے چنانچہ فتاوٰی رضویہ جلد 19
صَفْحَہ 646 پر ہے: سُود اور چوری اورغَصَب اورجُوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے۔“
چار4فرامینِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
واٰلہٖ وَسَلَّمَ (1)جس نے نَردشَیر([1]) سے جُوا کھیلا تو گویا اُس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبویا۔(ابنِ
ماجہ،ج4، ص231،حدیث:3763) سؤر کے گوشت و خون میں ہاتھ ساننا اِسے نجس بھی کرتا ہے
اور گِھناؤنا عمل بھی ہے اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی۔ (مراٰۃ
المناجیح،ج6، ص203) (2)جو کوئی نَرد کھیلے اس نے اللہ اور اُس کے رسول کی
نافرمانی کی۔(مسندِبزار،ج8، ص77، حدیث:3075) (3)جوشخص
نَرد کھیلتا ہے پھر نماز پڑھنے اٹھتا ہے،اس کی مثال اس
شخص کی طرح ہے جو پیپ اور سؤر کے خون سے وضو کر کے نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے۔(مسندامام
احمد،ج 9، ص50، حدیث:33199) (4)جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ!
جُوا کھیلیں،تو اُس (کہنے والے) کو چاہئے کہ صدقہ کرے۔ (مسلم، ص894
، حدیث:1647) یعنی جُوا کھیلنا تو درکنار اگر کسی کو جُوا کھیلنے
کی دعوت بھی دے تو وہ جوئے کا مال جس سے جوا کھیلنا چاہتا ہے وہ یا
دوسرا مال صدقہ کردے تاکہ اس اِرادے کا یہ کفارہ ہوجائے۔اس سے معلوم ہوا کہ ارادۂ
گناہ بھی گناہ ہے،یہ ہی مذہبِ جُمْہور ہے۔(مراٰۃُ المناجیح،ج 5، ص195)(دوسرا
حصسہ آئندہ شُمارہ میں)
[1]۔فارس کے بادشاہوں میں ایک بادشاہ آردشیر ابن تابک گزرا ہے اس نے یہ جوا ایجاد کیا۔نرد بمعنی ہار جیت کی بازی اردشیر آردشیر سے لیا گیا اس لیے اس کھیل کا نام نردشیر رکھا گیا یعنی اردشیر کا جوا، اس کی ایجادکردہ بازی۔ (مراٰۃ المناجیح،ج6،ص203)
Comments