Book Name:2 Buland Rutba Shakhsiyat

میرے مقام میں کوئی کمی تو نہیں آئی

پیارے اسلامی بھائیو ! اَمِیُر الْمُؤْمِنِین حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ علیہ  وقت کے خلیفہ تھے ، اس کے باوُجُود آپ بہت عاجزی و انکساری کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رات کے وقت آپ کے ہاں کوئی مہمان آیا ، آپ کچھ لکھ رہے تھے۔ قریب تھا کہ چراغ بجھ جاتا۔ مہمان نے عَرض کی : میں اُٹھ کر ٹھیک کر دیتا ہوں۔حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : ‌لَيْسَ ‌مِنْ كَرَمِ الرَّجُلِ أَنْ يَسْتَخْدِمَ ضَيْفَهُ یعنی مہمان سے خِدْمَت لینا عزّت دار آدمی کا طریقہ نہیں۔ مہمان نے کہا غُلام کو جگا دوں ؟ فرمایا : وہ ابھی ابھی سویا ہے۔پھر آپ خود اٹھے اور چراغ کو تیل سے بھر دیا۔مہمان نے کہا : یَا اَمِیُر الْمُؤْمِنِین ! آپ نے خود ذاتی طور پر یہ کام کیا ؟ فرمایا : ذَھَبْتُ وَاَنَا عُمَرُ ، وَرَجَعْتُ وَ اَنَا عُمَرُ جب میں  ( اِس کام کے لئے  ) گیا تو بھی عمر تھا اور جب واپس آیا تو بھی عمر تھا ، میرے مقام میں کوئی کمی تو نہیں آئی اور بہترین آدمی وہ ہے جو اللہ پاک کے ہاں تواضُع کرنے والا ہو ۔ ( [1] )  

پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے ! حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحمۃُ اللہ علیہ  نے کس قدر عاجزی فرمائی ، اللہ پاک ہمیں بھی عاجزی و انکساری کی توفیق نصیب فرمائے۔ بات واقعی سچّی ہے * جو تکبر کرتا ہے ،  ہے تو وہ بھی انسان ، وہ بھی مٹی سے ہی بنا ہے ، اس کے بھی 2 ہاتھ ،  2 پاؤں ،  2 آنکھیں ،  2  کان ہیں اور * جو عاجزی اختیار کرتا ہے ، وہ بھی انسان ہی ہے ، وہ بھی اللہ پاک کا بندہ ہی ہے۔ایک کے عاجزی کرنے اور دوسرے کے تکبر کرنے سے ان کی ہستی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہاں ! فرق پڑتا ہے انجام میں ، تکبر کا انجام ذِلّت و ہلاکت


 

 



[1]... احیاءُ علومِ الدین ، کتاب ذم الکبر و العجب ، بیان اخلاقِ المتواضعین…الخ ، جلد : 3 ، صفحہ : 435 ۔