Book Name:Qurbani Ek Ba Maqsad Fariza
حاجت ہے ، اسی سے کہئے ! فرمایا : وہ دیکھ رہا ہے ، کہنے کی ضرورت نہیں۔
سُبْحٰنَ اللہ ! یہ یقین تھا ، توکل تھا ، پھر اللہ پاک نے آپ کے اس یقین اور فرمانبرداری کا صِلہ بھی عطا فرمایا ، میلوں تک پھیلی ہوئی اس ہولناک آگ کو اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے پھولوں کے باغ میں تبدیل فرما دیا۔
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہجرت کا حکم ہوا ، چنانچہ آپ نے اپنا گھر ، اپنے رشتے دار ، سب چھوڑے اور ہجرت کرے کے ملکِ شام تشریف لے گئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بڑھاپے کو پہنچ چکے تھے ، آپ نے دُعا کی :
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰) ( پارہ : 23 ، سورۂ صٰفّٰت : 100 )
ترجَمہ کنزُ العرفان : اے میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔
اس عمر میں اللہ پاک نے آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صُورت میں نیک بیٹا عطا فرمایا ، ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دُودھ پینے کی عمر تھی ، حکم ہوا : اے ابراہیم ! اپنے بیٹے کو ان کی والدہ کو مکہ مکرمہ چھوڑ آئیے !
اللہ اکبر ! بڑھاپے میں بیٹا عطا ہوا ، ابھی دُودھ پینے کی عمر میں ہےاور بیٹے کو خود سے جُدا کر دینے کا حکم آگیا ، قربان جائیے ! یہ جذبۂ اطاعت ہے ، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے رَبّ سے کمال محبت ہے کہ یہ حکم سُن کر بھی آپ کی پیشانی پر بَل نہیں آیا ، زبان پر کوئی شکوہ آنا تو دُور کی بات ، دِل میں بھی کوئی خیال نہیں گزرا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رَبِّ کریم کے حکم پر سرِ تسلیم خم کیا اور اپنے دُودھ پیتے ننھے شہزادے کو اور ان کی والدہ کو تنہا مکہ مکرمہ کی بےآباد وادی میں چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے۔