Book Name:Aal e Nabi Ke Fazail
پیارے اسلامی بھائیو! مَعَلُوم ہوا؛ ساداتِ کرام کے نسب میں پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم سے لے کر حضرت آدَم عَلَیْہِ السَّلَام تک جتنے بھی آباء و اَجْداد ہیں، سب ہی بہت فضیلت والے، بہت بلند رُتبہ ہیں۔ معلوم ہوا؛ جیسا نسب ساداتِ کرام کو نصیب ہے، ایسا نسب دُنیا میں کسی اور کا نہیں ہے۔
حسنین کریمین کو اپنی اولاد پر ترجیح دیتے
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ کے دورِ خِلافت کا واقعہ ہے، ایک مرتبہ مدینۂ پاک میں مالِ غنیمت لایا گیا، حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ نے وہ مالِ غنیمت تقسیم کرنا شروع کیا، صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضْوَان آ رہے تھے، اپنا حِصَّہ لیتے جا رہے تھے، اسی دوران حضرت امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ بھی تشریف لے آئے، حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: بِالرَّحْبِ وَالْكَرَامَةِ یعنی (خوش آمدید!) آپ کے لئے عزّت و اِحترام ہے۔پِھر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ نے انہیں ایک ہزار دِرْہم (چاندی کے سکے) پیش کئے۔ اس کے بعد امامِ حُسَیْن رَضِیَ اللہُ عنہ تشریف لائے، حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ نے ان کا بھی اسی طرح احترام کیا اور انہیں بھی ایک ہزار دِرْہم پیش کئے۔ ان دونوں شہزادوں، سیّد زادوں کے بعد حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ کے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما حاضِر ہوئے، حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ نے انہیں ہزار دِرْہَم کی بجائے 500 دِرْہَم دئیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما نے عرض کیا: اے اَمِیْر ُالْمُؤْمِنِیْن! امام حسن و حُسَین رَضِیَ اللہُ عنہما ابھی ننھی عمر میں تھے، میں اس وقت بھی دِین کی خدمت کے لئے سر تَن کی بازی لگایا کرتا تھا، جہاد میں شریک ہوا کرتا تھا، اس کے باوُجُود