Book Name:Shafaat e Mustafa
یہ دُنیوی لحاظ سے ایک سمجھانے کی مثال (Example)ہے؛ اگر کسی ماں کا بچہ گم ہو جائے، اس کا حال کیا ہو تا ہے، کس شوق، کسی محبّت اور کیسی فِکْر مندی کے ساتھ وہ اپنے بچے کو تلاش کرتی ہے، ہمارے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم قیامت کے دِن اِسی انداز سے اپنے غُلاموں کو ڈھونڈ رہے ہوں گے۔
صحابئ رسول حضرت انس بن مالِک رَضِیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! روزِ قیامت میری بھی شَفاعت فرما دیجئے گا۔ فرمایا: اَنَا فَاعِلٌ ہاں! کروں گا۔ عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! * پِھر روزِ قیامت آپ کو کہاں ڈھونڈوں گا؟ فرمایا: پُل صِراط کے پاس آجانا * عرض کیا: وہاں نہ پاؤں تو کہاں ڈھونڈوں؟ فرمایا: پِھر میزان کے پاس آجانا * عرض کیا: وہاں بھی نہ پاؤں تو؟ فرمایا: پِھر حوضِ کوثَر پر آجانا۔([1])
گویا فرما رہے ہیں: اے انس! لوگوں کو میری سب سے زیادہ ضرورت ان 3جگہوں پر ہی ہو گی۔ میں پُل صراط کے قریب رَبّ سَلِّم کہہ رہا ہوں گا، اپنی اُمّت کے لئے سلامتی سے گزرنے کی دُعائیں کر رہا ہوں گا۔
رضاؔ پُل سے اب وجد کرتے گزریے کہ ہے رَبِّ سَلِّمْ صَدائے مُحَمَّد([2])
پِھر میزان پر لوگوں کو میری ضرورت ہو گی * اعمال تُل رہے ہوں گے * کسی کا گُنَاہوں کا پلڑا بھاری ہو رہا ہو گا * کسی کے پاس ایک نیکی کم ہو گی * کسی کے پاس ہزار