دریا کے پار

کلاس روم

دریا کے پار

*مولاناحیدر علی مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

سر بلال آج کا سبق وائٹ بورڈ کے ذریعے بچوں کو اچھے سے سمجھا چکے تھے اب بس ریڈنگ باقی تھی تو سر نے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا: آج کون ریڈنگ کرے گا؟ کافی سارے بچوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے پھر سر نے دوسری قطار  میں بیٹھے ایک بچے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: کامران بیٹا چلیں آپ ریڈنگ کریں، کافی دن ہو گئے آپ سے نہیں سنی ۔ اتنا کہہ کر سر کتاب کی طرف متوجہ ہو گئے،   کافی لمحات گزر گئے لیکن کامران نے سبق پڑھنا شروع نہ کیا  ، سر نے دیکھا تو کامران اور اس کے ساتھ بیٹھے بچے علی رضا کے درمیان   کسی بات پر تکرار ہو رہی ہے، کیا بات ہے کامران بیٹا! آپ پڑھنا نہیں چاہ رہے یا علی رضا آپ کو پڑھنے نہیں دے رہے، سر بلال نے مسکراتے ہوئے کہا۔

کامران: سر علی بھائی مجھے کتاب نہیں دے رہے۔

علی رضا: سر میری کتاب ہے، کامران اپنی کتاب لاتے نہیں ہیں۔

کامران: سر میری کتاب گم ہو گئی ہے۔

سر بلال: چلیں بچو! ختم کریں بحث، علی بیٹا کامران کے ساتھ کتاب شیئر کرلیں، کیا آپ نے اللہ پاک کے آخری  نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وہ پیاری حدیث نہیں سنی کہ اللہ پاک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے ۔ (مسلم ، ص1110 ، حدیث : 6853)

کامران نے سبق ختم کیا تو ابھی پیریڈ کے ختم ہونے میں کچھ وقت باقی تھا، کلاس مانیٹر معاویہ کہنے لگے: سر جی آج کوئی واقعہ ہی سنا دیں۔

اچھا بچو بتائیں کہ یہ کون سا اسلامی مہینا جاری ہے؟ سر بلال نے   کلائی پر   بندھی گھڑی   میں ٹائم دیکھتے ہوئے پوچھا۔

دو تین بچوں کے علاوہ کسی نے ہاتھ کھڑا نہ کیاپھر سر کے اشارے پر ان میں سے ایک بچے نے جواب دیا: سر ابھی ربیع الآخر کا اسلامی مہینا ہے۔

سر بلال: شاباش۔بچو! جس طرح ہر اسلامی مہینے میں ہم مسلمان کسی نہ کسی بزرگ کی یاد مناتے ہیں یونہی ربیع  الآخر کو دیکھا جائے تو اس میں ہم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ کو یاد کرتے ہیں۔

معاویہ: سر وہی شیخ عبدالقادر جیلانی جن کا ڈاکوؤں کے سامنے بہادری سے سچ بولنے والا واقعہ مشہور ہے۔

سر بلال: جی جی بیٹا وہی شیخ عبدالقادر جیلانی، جنہیں ہم گیارہویں والے پیر بھی کہتے ہیں اور شہنشاہِ بغداد بھی کہتے ہیں۔ ہمارے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ میں بے شمار خوبیاں تھیں، اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت، عبادت کا ذوق، علم کا شوق  ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی ایک اہم خوبی پتا ہے کیا تھی: سخاوت  یعنیGenerosity ، آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک بھی پیسہ نہ بچے۔(قلائدالجواہر،ص8ملخصاً) یعنی شام تک سارے پیسے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں خرچ ہو جائیں گے۔

کامران: سر یہ دینار کیا ہوتا ہے؟

سر بلال: بیٹا جیسے اب ہماری کاغذ کی کرنسی ہوتی ہے ناں تو پہلے سونے اور چاندی کے سکّے لوگ خریدو فروخت کے لئے کرنسی کے طور پر استعمال کرتے تھے، چاندی کے سکوں کو درہم اور سونے کے سکوں کو دینار کہتے تھے۔ چلیں اب شیخ کی سخاوت کا انوکھا واقعہ سنیں: عراق میں ایک دریا ہے دریائے دجلہ، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے دور میں بھی لوگ دریا پار کرنے کے لئے کشتی استعمال کیا کرتے تھے تو ایک بار آپ رحمۃُ اللہِ علیہ  نے ایک شخص کو کچھ پریشان اور غمگین( Sad )دیکھ کر اس کا حال پوچھا تو اس نے عرض کی: حضور والا! دریائے دجلہ کے پار جانا (cross کرنا)چاہتا ہوں مگر ملاح( Sailor )نے بغیر کرایہ کے کشتی میں نہیں بٹھایا اور میرے پاس کرایہ دینے کے لئے کچھ بھی پیسے نہیں۔اسی دوران  حضور غوثِ پاک کے کسی عقیدت مند نے تیس دینار آپ کو تحفے میں دیے  تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے تیس کے تیس دینار اس شخص کو دے دیے اور فرمایا: جاؤ! یہ اس ملاح کو دے دینا اور کہہ دینا کہ آئندہ وہ کسی بھی غریب کو دریا پار پہنچانے سے انکار نہ کرے۔( اخبارالاخیار،ص18)بچوں کی خاموشی دیکھ کر سر کہنے لگے: لگتا ہے آپ کو بات سمجھ نہیں آئی، ارے بچو اس وقت کشتی کا کرایہ ایک سے دو دینار ہوتا تھا ایسے میں آپ رحمۃُ اللہِ علیہ  نے پورے تیس دینار دے دیے تھے اسے۔ یہ سن کر بچوں کے ” سبحان اللہ“  کہنے سے کلاس روم گونج اٹھا، سر نے گھڑی دیکھی اور اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا: تو بچو ہم اپنے بزرگوں کی طرح نہیں تو   کم از کم اپنی طاقت کے مطابق ضرور دوسروں کی مدد کریں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی


Share