تربیتِ اَولاد

اسلاف کے قلم سے

تربیتِ اولاد

*حضرت علامہ سید محمود احمد رضوی رحمۃُ اللہِ علیہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

شیخ الحدیث، شارح بخاری حضرت علامہ سید محمود احمد رضوی رحمۃُ اللہِ علیہ  علومِ عقلیہ و نقلیہ کے  ماہر،  مضبوط قلم کے مالک اور دین و سنّیت کا درد رکھنے والے جہاندیدہ  (Experienced) عالمِ دین تھے۔ آپ کی ولادت 1924ء میں ہند کے شہر آگرہ میں ہوئی۔  آپ مفتیِ اعظم پاکستان ابو البرکات سیّد احمد قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کے بیٹے اور  امام المحدّثین علامہ ابو محمد سیّد دیدار علی شاہ صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ کے پوتے ہیں۔ آپ اپنے دادا جان  سیّد دیدار علی شاہ  صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ کے قائم کردہ دارالعلوم حزب الاحناف کے فاضل اور پھر اسی عظیم درسگاہ کے شیخ الحدیث رہےہیں۔ تحریکِ ختم نبوّت 1953ء میں آپ  اپنے چچا جان مولانا سیّد ابو الحسنات قادری  کے ساتھ مصروف رہے۔   آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے  درس و تدریس کے  ساتھ  ساتھ  کئی تصانیف کے ذریعے  بھی دین کی خدمت میں حصہ لیا۔ بخاری شریف کی ضخیم شرح بنام”فیوضُ الباری“ لکھی۔  آپ نے مختلف رسائل و جرائد میں   علمی و تحقیقی مضامین لکھے نیز آپ کی زیرِ ادارت ماہنامہ ’’رضوان‘‘ بھی جاری ہوتا رہا۔ فکرِ اہلِ سنّت کے یہ عظیم علمبردار  14 اکتوبر 1999ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے، مزارِ پُرانوار دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں ہے۔

آپ کے مضامین دین  و سنّیت کی فکر و درد سے بھرپور اور عوام و خواصِ اہلِ سنّت کے لئے فکر انگیز ہوتے۔  اسی اہمیت کے پیشِ نظر  ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“  کے اس شمارے میں آپ کا ایک مضمون ”تربیتِ اولاد“  قارئین کے لئے پیش کیا جارہا ہے: 

کسی تہذیب کی تعمیر میں جو ہاتھ تربیتِ اولاد کا ہوتا ہے وہ شاید ہی کسی اور اجتماعی فعل  کو حاصل ہو۔ یہی وہ بنیادی پتھر ہے جو آئندہ نسل کی کجی یا استواری ([i]) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ایک زندہ دین کی حیثیت سے اسلام نے اولاد کی تربیت اور اس کی نشو و نماکی جانب خاص توجہ دی ہے اور اس کے متعلق واضح ہدایات رکھی ہیں بلکہ اگر یہ کہیں تو بےجا نہ ہوگا کہ اس نے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ اپنے بعداپنی اولاد کی اصلاح اولین فرض ہے۔ اس  آیت میں اسی جانب اشارہ ہے۔

(قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا )([ii]) اور(وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ(۲۱۴) )([iii])

خاندان اور اہل و عیال کی اصلاح و تربیت وہ اہم فرض ہے جس سے غفلت نہ صرف انفرادی مضرت ([iv])کا باعث ہے بلکہ اس سے تمام معاشرہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ کسی ایک فرد کا بغیر اصلاح و تربیت کے نکل جانا کئی خاندانوں کے محرومِ اصلاح رہ جانے کے برابر ہے۔ کیونکہ ایسے شخص کی نسل بھی اسی کی مثیل و نظیر ہوگی اور نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کئی پشتوں بعد بھی اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرے یا نہ کرے۔

خاندان معاشرہ کی ایک ایسی مختصر ترین اکائی ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت اس کے سرپرست کے لئے کوئی مشکل مسئلہ نہیں۔ روز مرہ کی مصروفیات اور زندگی کے مشاغل کے ساتھ ساتھ وہ اس فرض کو بڑی خوش اسلوبی اور نہایت آسانی سے انجام دے سکتا ہے اور اس کے خصوصی اختیار و اقتدار کے پیشِ نظر نیز ان سہولتوں کے باعث جو اُسے حاصل ہیں۔ یہ ذمہ داری بھی اس کے سپرد کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد اور اہل و عیال کی افتادِ طبع([v])عیوب و محاسن اور عادات و اطوار سے جس طور پر آگاہ ہوسکتا ہے کسی دوسرے کے لئے ان کا احاطہ ناممکن ہے۔ لہٰذا اس کی تلقین و نصیحت باموقعہ، برمحل اور مؤثر ہوگی۔ نیز اس کا ذاتی کردار اور عملی رفتار بھی اس سلسلہ میں بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی لئے حضور علیہ السّلام نے فرمایا ہے: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ تم میں سے ہر شخص چرواہا یعنی ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر شخص سے اس کی رعیّت  اور ماتحتوں کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔([vi])

آج کل جو بےچینی و اضطراب اور غیرمطمئن حالات دیکھنے میں آرہے۔ ان کا بڑا سبب اسی معاشرتی پہلو سے غفلت شعاری ہے۔ معاشرہ کی بڑی بڑی خرابیاں اور ناقابلِ علاج برائیاں والدین کے تربیت اولاد میں تساہل  کا نتیجہ ہیں۔ والدین کی ذرا سی غفلت اور کوتاہی آگے چل کر پوری قوم کے لئے متعدد پُر پیچ مسائل ([vii]) کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر وہی آئندہ زمانہ میں نئی نسل کی برائیوں کا رونا روتے ہیں۔ حالانکہ بنیادی لحاظ سے یہ سب انہی کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ ابتدائی عمر ہی سے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرتے اور اس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے تو غلط نتائج ہرگز نہ نکلتے۔

ایک تلخ حقیقت:

میرا اندازہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں سب سے زیادہ کوتاہی اور سُستی طبقہ علماء سے ہو رہی ہے (جس میں راقم بھی شامل ہے)([viii]) یہ حضرات مدارسِ دینیہ کے انتظام و انصرام اور دینی طلباء کی تعلیم و تربیت اور عوام و خواص میں دین کی تبلیغ و اشاعت میں منہمک ہیں۔ قوم کی اصلاح و فلاح کے لئے انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں۔ لیکن خود اپنی اولاد اور لواحقین کی دینی تعلیم و تربیت کے معاملہ میں ان کی توجہ صفر کے برابر ہے(اِلّا ماشآء اللہ)۔۔۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے جلیل القدر علماء و مشائخ جو اپنے وقت میں علم و تقویٰ کے آفتاب و مہتاب بن کر چمکے اور جن کی تعلیم و تربیت سے سینکڑوں افراد علم و فضل کے زیور سے آراستہ ہوئے۔ آج ان کی اپنی  اولاد اور لواحقین دینی علم سے بےبہرہ اور علم و تقویٰ سے کوسوں دور نظر آتی ہے جن کے باپ دادا علومِ دینیہ کےامام مانے جاتے تھے۔ آج ان کی اولاد اس نور سے یکسر محروم و نفور([ix]) ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ یہ علماء و مشائخ دوسروں کی تعلیم و تربیت میں تو سرگرمی کے ساتھ حصہ لیتے رہے اور خود اپنی اولاد اور خاندان کی اصلاح و تربیت کی طرف مطلق توجہ نہ دے سکے۔ مقصد اس گزارش کا صرف اس قدر ہے کہ طبقہ علماء کو اپنی اس کوتاہی و غفلت کا نوٹس لینا چاہئے اور دینی و علمی خاندانوں میں خصوصاً علمِ دین سے متعلق جو خلا پیدا ہورہا ہے اس کے تدارک کے لئے خصوصی توجہ کرنی چاہئے۔([x])



([i])یعنی بگاڑ یا سُدھار

([ii])ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ  جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (پ28،التحریم:6)

([iii])ترجمۂ کنز الایمان: اور اے محبوب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ۔(پ19،الشعرآء:214)

([iv])نقصان

([v])یعنی مزاجِ فطرت

([vi])بخاری،2/159،حدیث:2554

([vii])بہت سے الجھے ہوئے مسائل

([viii])اولاد کی تربیت سے غافل رہنے والوں میں حضرت موصوف کا خود کو شامل کرنا یقیناً انتہا درجہ کی عاجزی ہے۔

([ix])یعنی اولاد علمِ دین سے محروم اور بیزار ہے۔

([x])بصیرت،ص109 تا 111


Share