معیار

درس ِکتاب زندگی

معیار (standard)

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

کراچی کے ایکسپوسینٹر (Expo centre)میں اسلامی کتابوں کی نمائش لگی ہوئی تھی،چند دوست اکٹھے وہاں پہنچے، سینکڑوں کتابوں کے درجنوں اسٹالز کا وزٹ کیا، کسی نے محض خوب صورت ٹائٹلز والی کتابیں،کسی نے صرف نئے نئے موضوعات والی کتابیں تو کسی نے ان چیزوں کے ساتھ ساتھ آسان اور عام فہم مستند مواد پر مشتمل معلوماتی کتابیں خریدیں۔

فرق کیوں؟

قارئین! اتنی ساری کتابوں میں سے ہر دوست نے الگ کتاب سلیکٹ کی۔سلیکشن میں اس فرق کی کئی وجوہات ممکن ہیں ان میں سے ایک اہم اور نمایاں سبب ہے معیار (Standard)! معیار و ہ پیمانہ (Scale) ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی شے کی پرفارمنس اور رزلٹ کو جانچا جاسکتا ہے۔

معیارکا اسلامی تصور

معیار کا تصور (Concept)اسلامی تعلیمات میں بھی موجود ہے، جیسا کہ زیادہ عزت والے کا معیار تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے، قراٰنِ کریم میں ہے:

(اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ   )

ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ26،الحجرات:13)

اسی طرح متعدد فرامین ِمصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بھی کامل مؤمن، اچھے پڑوسی، اچھے شوہر اور اچھی بیوی جیسی کئی چیزوں کے معیاربیان کئے گئے ہیں، مثلاً ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: ”مجھے یہ کیسے معلوم ہوکہ میں نے اچھا کام کیا یا بُرا؟“ تو پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو واقعی تم نے اچھا کام کیا اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے بُرا کیا تو واقعی تم نے بُرا کام کیا۔“(ابن ماجہ،4/478، 479،حدیث:4222، 4223)

رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: بےشک سب سے اچھی کمائی ان تاجروں کی ہے جو بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں، امین بنائے جائیں تو خیانت نہ کریں، وعدہ کریں تو خلاف ورزی نہ کریں، کوئی چیز خریدیں تو اس کی مذمت نہ کریں، جب فروخت کریں تو اس کی بے جا تعریف نہ کریں اور جب ان پرقرض ہو تو ٹال مٹول نہ کریں اور ان کا کسی پر قرض ہو تو اس پر تنگی نہ کریں۔(شعب الایمان،4/221،حدیث:4854)

انتخاب میں معیار کا خیال

اس کا مشاہدہ اور تجربہ آپ کو بھی ہوگا کہ

(1)بچوں کی تعلیم کے لئے کئی طرح کے اسلامک اسکولز، مدارس اور جامعات کھلے ہیں لیکن لوگ اپنے اپنے معیار کے مطابق ان میں سے کسی ایک کو چُنتے ہیں۔

(2)سفر کیلئے کئی بس کمپنیاں، ٹرینیں اور ائیرلائنز دستیاب ہوتی ہیں لیکن لوگ سہولتوں اور ٹائم کی پابندی وغیرہ کو معیار ٹھہراتے ہوئے کسی خاص بس یا ٹرین یا فلائٹ کا انتخاب کرتے ہیں۔

(3)ہوٹلوں کی لائن لگی ہوتی ہے لیکن گاہگوں کی لائن ایک یا دو ہوٹلوں پر زیادہ ہوتی ہے، لوگ دور دور سے وہاں کھانا کھانے آتے ہیں۔

(4)درزی،موچی، پلمبر،الیکٹریشن، مکینک اور اسی طرح کے دیگرسینکڑوں کاریگر اپنی مہارت کے مطابق کام کرنے کے لئے موجود ہوتے ہیں لیکن گاہک اسی سے کام کرواتے ہیں جس سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔

(5)دینی خدمت کرنے والے کئی ادارے اور تنظیمیں میدانِ عمل میں ہوتی ہیں لیکن زیادہ ترمسلمان اسی تنظیم سے وابستہ ہوتے ہیں جس کی کارکردگی شاندار اور معاملات کھلی کتاب کی طرح ہوتے ہیں جیسا کہ انٹرنیشنل دینی تنظیم دعوتِ اسلامی۔

(6)سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک سے بڑھ کر ایک دینی کانٹینٹ موجود ہوتا ہے لیکن کچھ کے فالورز لاکھوں میں اور دوسرے کے چند سو ہوتے ہیں۔

معیار کو ترجیح

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ لوگ معیار کو ترجیح دیتے ہیں، لہٰذا اگرآپ کاروبار کرتے ہیں،ڈاکٹریا ٹرانسپورٹر ہیں، اسلامی تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں، مفتیِ اسلام، عالمِ دین، مبلغ، امام، خطیب، استاذ، رائٹر، ٹرانسلیٹر،سوشل میڈیا ایکٹویسٹ وغیرہ کے طور پر دینی خدمات انجام دیتے ہیں تو کامیابی کے لئے معیار کا بھی خیال رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ سوچنے کی بات ہے کوئی شخص آپ کے پاس کیوں آئے گا؟ آپ کو کیوں سلیکٹ کرے گا؟

معیار کے حوالے سے ٹپس

(1)اپنے معیار کو مناسب سے بہتر اور بہترسے بہترین کیسے بنانا ہے؟ اس حوالے سے اپنے شعبے کے ماہرین سے مشاورت کریں اور ان سے راہنمائی لیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ درزی ہیں تو سارے شہر میں آپ سے بہتر سلائی کرنے والا کوئی نہ ہو۔

(2)آپ کا معیار حقیقی ہو نہ کہ بناوٹی، اس فرق کو یوں سمجھئے کہ آپ نے پنجوں کے بل کھڑے ہوکر اپنا قد بڑا ثابت کردیا لیکن جب پاؤں کی ایڑیاں زمین پر لگوائی گئیں تو آپ کے لمبے قد کا پول کھل گیا۔

(3)مشہور ہے: ”First Impression is the Last Impression“ اس لئے جس سے پہلی مرتبہ ڈیلنگ کریں اس پر اچھا تأثر چھوڑیں، عملی اور قولی طور پر کوئی غیر اخلاقی حرکت نہ کریں، میں نے ایک باباجی کو دیکھا جنہوں نے فروٹ کی ریڑھی لگارکھی تھی، وہ کسی نہ کسی وجہ سے گاہگ سے لڑنا شروع کردیتے تھے، کسی نے ریٹ کم کرنےکا کہا یا مرضی کے پھل چننا چاہے تو وہ اس پر چڑھائی کردیتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر لوگوں نے ان سے پھل خریدنے چھوڑ دئیے۔

(4)مقصد پانے کے بعد معیار کو نظر انداز نہ کریں، جیسے کسی طالبِ علم نے خوب محنت کرکے امتحان میں پوزیشن لے لی لیکن بعد میں سست پڑ گیا تو ایک دن آئے گا کہ وہ کمزور طلبہ میں شمار ہونے لگے گا۔

(5)دینی خدمات پر مامور خطبا، واعظین،مبلغین، مسجد اور جامعہ بنانے والے افراد کوبھی غور کرنا چاہئے کہ لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے کے لئے خوش اخلاق ہونا، باوقار لباس زیبِ تن کرنا، مسکرا کر ملنا، وعدے کی پابندی کرنا، لوگوں کو خوشیوں پر مبارک باد دینا اور رنج وغم میں ڈھارس بندھانا کتنا ضروری ہے! اس لئے انہیں بھی اپنی پرسنالٹی کو ایک معیار تک پہنچانا ضروری ہے۔

آخری اور ضروری بات

اعلیٰ معیارکو پانے کی جدوجہد میں شریعت کے احکام کو پیشِ نظر رکھنا بہت بہت بہت ضروری ہے۔

اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضان مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی


Share