رسول کریم ﷺ سے گھٹی کا شرف پانے والے

کم سن صحابہ کرام

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے گھٹی کا شرف پانے والے

*مولانا اویس یامین عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

قارئینِ کرام! تَحْنِیک یعنی گھٹی دینا مستحب ہے، اِمام یحییٰ بن شرف نَوَوِی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بچہ پیدا ہونے کے بعد کھجور (یا کسی بھی میٹھی چیز) سے گھٹی دینا مستحب ہے۔

گھٹی دینے کا طریقہ:اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھٹی دینے والا کھجور کو اپنے منہ میں خوب چباکر نرم کرے کہ اسے نگلا جا سکے پھر وہ بچے کا منہ کھول کر اس میں رکھ دے ۔

گھٹی کون دے؟ مستحب یہ ہے کہ گھٹی دینے والا نیک اور متقی و پرہیز گار ہو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔اگر ایسا کوئی شخص پاس موجود نہ ہو تو نَومَولُود بچے کو تحنیک کی خاطِر کسی نیک شخص کے پاس لے جایا جا سکتا ہے۔ ([i])جیساکہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدّيقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ لوگ اپنے پیدا ہوئے بچوں کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس ميں لايا کرتے تھے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے لئے خيرو برکت کی دعا فرماتے اور تَحْنِیْک (یعنی گھٹی دیا) کرتے تھے۔ ([ii])

گھٹی دلوانا صحابہ کا عمل ہے:حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرات صحابہ اپنے نومولود بچے کو حضور کی خدمت میں لاتے تھے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کھجور چباکر اپنی زبان شریف سے بچے کے تالو میں لگادیتے تھے تاکہ بچے کے منہ میں سب سے پہلے حضور کا لُعاب شریف پہنچے، اس عمل کا نام تحنیك ہے۔([iii])نیز ایک اور مقام پر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: بچے میں پہلی گھٹی دینے والے کا اثر آتا ہے اور اس کی سی عادات پیدا ہوتی ہیں۔([iv])

علما و مشائخ سے گھٹی دلوانا:شارح بخاری حضرت مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب بچہ پیدا ہو علماء، مشائخ، صالحین میں سے کسی کی خدمت میں پیش کیا جائے اور وہ کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں۔([v])

آیئے! رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جن بچوں نے گھٹی لینے کا شرف حاصل کیا ان کے محبت بھرے چند واقعات پڑھتے ہیں۔

امام حسن اور امام حسین کو گھٹی دی: حضرت علیُّ المُرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: جب حضرت حسن رضی اللہُ عنہ پیدا ہوئے تو میں نے ان کا نام ”حَرب“ رکھا اور میں یہ پسند کرتا تھا کہ مجھے ”ابوحَرب“ کنیت سے پُکارا جائے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (میرے گھر) تشریف لائے، حضرت حسن رضی اللہُ عنہ کو گھٹی دی اور مجھ سے فرمایا کہ تم نےمیرے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے؟ تو میں نے عرض کی: حرب۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ حسن ہے۔ پھر جب حضرت حسین رضی اللہُ عنہ کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام بھی ”حرب“ رکھا۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے، حضرت حسین رضی اللہُ عنہ کو گھٹی دی اور مجھ سے پوچھا کہ تم نےمیرے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے؟ تو میں نے عرض کی: حرب۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ حسین ہے۔([vi])

حضرت عبداللہ بن عباس کو گھٹی دی: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: (جب میں پیدا ہوا تو) مجھے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک کپڑے میں لپیٹ کر لایا گیا، حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے لُعاب مبارک (یعنی بابرکت تھوک) سے مجھے گھٹی دی۔([vii])

حضرت عبداللہ بن زبیر کو گھٹی دی: حضرت اسماء بنتِ ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہما فرماتی ہیں کہ میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کررہی تھی، جب میں قُبا کے مقام پر پہنچی تو میرے یہاں بچے (حضرت عبداللہ بن زیبر رضی اللہُ عنہما) کی ولادت ہوگئی، میں بچے کو لے کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک گود میں اُس بچے کو رکھ دیا، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھجور منگوائی اور اُسے چبایا، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا لُعابِ دہن اس بچے کے منہ میں ڈال دیا، سب سے پہلے اس بچے کے پیٹ میں جو چیز داخل ہوئی وہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک لُعاب تھا، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے کھجور سے گھٹی دی اور اُس کے لئے دعائے خیر و برکت فرمائی۔([viii])

حضرت ابوموسیٰ اشعری کے بیٹے کو گھٹی دی: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے یہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو میں اُسے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں لے گیا، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُس کا نام ”ابراہیم“ رکھا، اُسے کھجور سے گھٹی دی اور اُس کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔([ix])

حضرت ابوطلحہ انصاری کے بیٹے کو گھٹی دی: حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہيں کہ جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہُ عنہ کے بیٹے عبد اللہ پيدا ہوئے تو میں اسے لے کر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمايا: کيا تمہارے پاس کھجوريں ہيں؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں نکال کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پيش کیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ کھجوریں اپنے مبارک منہ میں ڈال کر چبائيں،پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بچے کا منہ کھول کر اسے بچے کے منہ میں ڈال ديا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: انصار کو کھجوروں کے ساتھ محبت ہے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بچے کا نام ”عبدُ اللہ“ رکھا۔([x])

حضرت عبدالرحمٰن بن زید کو گھٹی دی: حضرت عبد الرحمٰن بن زید رضی اللہُ عنہ جب پیدا ہوئے تو ان کے نانا جان حضرت ابولُبابہ رضی اللہُ عنہ نے انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میں نے آج تک اتنے چھوٹے جسم والا بچہ نہیں دیکھا۔ مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بچے کو گھٹی دی، سر پر ہاتھ مبارَک پھیرا اور دعائے برکت سے نوازا۔(دعائے مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ) حضرت عبدالرحمٰن بن زید رضی اللہُ عنہ جب کسی قوم (Nation) میں ہوتے تو قد میں سب سے اونچے (Tall) نظر آتے۔([xi])

حضرت نعمان بن بشیر کو گھٹی دی: جب حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہُ عنہما  کی ولادت ہوئی تو آپ رضی اللہُ عنہ کی والدہ محترمہ حضرت عَمرہ بنتِ رواحہ رضی اللہُ عنہا آپ کو لے کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھجور منگواکر چبائی، پھر اسے آپ کے منہ میں ڈال  کر اس کے ذریعے آپ کو گھٹی دی۔([xii])

حضرت عبداللہ بن مُطِیع کو گھٹی دی: حضرت عبداللہ بن مطیع رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت مطیع رضی اللہُ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ انہیں خواب میں کسی نے کھجوروں کی تھیلی دی ہے، انہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنا خواب بیان کیا، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا تمہاری کوئی بیوی اُمید سے ہے؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں! بَنُولَیث (قبیلے) سے تعلق رکھنے والی بیوی امید سے ہے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عنقریب اس کے یہاں تمہارا بیٹا پیدا ہوگا۔ جب اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا تو وہ اسے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لائے، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے کھجور سے گھٹی دی، اس کا نام ”عبد اللہ“ رکھا اور اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔([xiii])

حضرت سِنان بن سلمہ کو گھٹی دی: حضرت سِنان بن سلمہ رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ میں غزوۂ حُنَین کےموقع پر پیدا ہوا، میرے والد کو میری ولادت کی خوشخبری سنائی گئی تو انہوں نے کہا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دِفاع میں تیر چلانا مجھے بیٹے کی خوشخبری سے زیادہ محبوب ہے۔([xiv])پھر میرے والد مجھے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لائے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے گھٹی دی، میرے منہ میں لُعابِ دہن ڈالا، میرے لئے دعا کی اور میرا نام ”سِنان“ رکھا۔([xv])

حضرت یحییٰ بن خَلَّاد کو گھٹی دی: حضرت یحییٰ بن خلاد رضی اللہُ عنہ کی ولادت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں ہوئی، انہیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں لایا گیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو کھجور چبا کر گھٹی دی اور فرمایا: میں اس کا وہ نام رکھوں گا جو حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السّلام کے بعد کسی کا نہیں رکھا گیا، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کا نام ”یحییٰ“ رکھا۔([xvi])

حضرت ابواُمامہ اَسعد بن سہل کو گھٹی دی: حضرت ابواُمامہ اَسعد بن سہل رضی اللہُ عنہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری سے دو سال پہلے پیدا ہوئے، آپ رضی اللہُ عنہ کو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں لایا گیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں گھٹی دی اور ان کا نام ان کے نانا حضرت اَسعد بن زُرارہ رضی اللہُ عنہ کے نام پر ”اَسعد“ رکھا۔([xvii])

حضرت عبداللہ بن حارث بن نَوفَل کو گھٹی دی: حضرت عبداللہ بن حارث بن نَوفل رضی اللہُ عنہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں پیدا ہوئے، ولادت کے بعد آپ کی والدہ ہند بنتِ ابوسفیان رضی اللہُ عنہما انہیں لے کر اپنی بہن اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہُ عنہا کے گھر آئیں، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر میں داخل ہوئے تو حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہُ عنہا سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہُ عنہا نے عرض کی: یہ آپ کے چچا حارث بن نَوفَل بن حارث بن عبدالمطلب اور میری بہن ہند بنتِ ابوسفیان کے بیٹے ہیں، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے منہ میں لُعابِ دہن ڈال کر انہیں گھٹی دی اور ان کے لئے دُعا فرمائی۔([xviii])

حضرت محمد بن ثابت بن قیس کو گھٹی دی: حضرت محمد بن ثابت بن قیس رضی اللہُ عنہما جب پیدا ہوئے تو آپ کے والد ثابت بن قیس رضی اللہُ عنہ آپ کو لے کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے منہ میں لُعابِ دہن ڈال کر آپ کو گھٹی دی اور آپ کا نام ”محمد“ رکھا۔([xix])

حضرت محمد بن نبیط بن جابر کو گھٹی دی: حضرت محمد بن نبیط بن جابر رضی اللہُ عنہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں پیدا ہوئے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو گھٹی دی اور آپ کا نام ”محمد“ رکھا۔([xx])

حضرت عبداللہ بن حارث بن عَمرو کو گھٹی دی: حضرت عبداللہ بن حارث بن عَمرو رضی اللہُ عنہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں پیدا ہوئے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو گھٹی دی۔([xxi])

قارئینِ کرام! صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کے یہ چند واقعات پڑھ کر ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے بچّوں کو گھٹی دِلوانے، نام رکھوانے اور دُعائے برکت حاصل کرنے کے لئے مشائخِ کرام، بُزرگانِ دین اور علمائے کاملین کی بارگاہ میں حاضری دینی چاہئے تاکہ پیدا ہوتے ہی ہمارے بچوں کو نیک لوگوں کی برکتیں ملیں۔

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i])شرح مسلم للنووی، 14/122

([ii])مسلم، ص913، حدیث:5619

([iii])مراٰۃ المناجیح، 5/647

([iv])اسلامی زندگی، ص20

([v])نزہۃ القاری، 5/430

([vi])مسند بزار، 2/315، حدیث:743

([vii])معجم کبیر، 10/233، رقم: 10566

([viii])بخاری، 3/546، حدیث:5469

([ix])بخاری، 3/546، حدیث:5467

([x])مسلم، ص912، حدیث:5612

([xi])الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، 5/29

([xii])الاستیعاب، 4/441

([xiii])الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، 5/21

([xiv])مسند امام احمد، 7/246، حدیث: 20093

([xv])الاستیعاب، 2/217

([xvi])اسد الغابہ، 5/486

([xvii])الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، 1/326

([xviii])طبقاتِ ابن سعد، 5/17-الاستیعاب، 3/21

([xix])الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، 6/194، 195

([xx])اسدالغابہ، 5/118

([xxi])الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، 5/8


Share