Book Name:Karbala Ke Jaan Nisaron
بندے تیرےہو کر رِہ جاتے ہیں، نہ یہ مالِ غنیمت چاہتے ہیں، نہ اپنے جھنڈے لگوانا چاہتے ہیں، ان کا مقصد، ان کا مطلوب تو صِرْف یہ ہوتا ہے کہ اللہ پاک کے نام پر جان قربان کر کے اس کے حُضُور کامیاب ہو جائیں۔
اللہ پاک ہمیں بھی ایسا ذوق، ایسا شوق نصیب کرے...!! ہمیں تو معمولی پریشانی آتی ہے تو *شَور کرنے لگتے ہیں*بےصبری کرتے ہیں*شکوے کرتے ہیں*نیکیوں سے مُنہ پھیر لیتے ہیں، یہ کربلا والے ہیں*یہ اللہ پاک کی محبّت سے سرشار ہیں*باذَوق ہیں *نیک پرہیزگار ہیں*یہ رَبّ کی رضا کی خاطِر اپنا سب کچھ قربان کرنے والے لوگ ہیں *کوئی مشکل*کوئی پریشانی انہیں رَبّ کے دروازے سے دُور نہیں کر سکتی...!! اللہ پاک ہمیں ان کربلا والوں کا فیضان نصیب فرما دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم
کربلا کے پہلے شہید کی نِرالی تمنا
میدانِ کربلا میں جتنے خُوش نصیب شریک تھے، ان سب کا ایمانی جوش اور جذبہ بھی بہت کمال تھا۔ کتابوں میں لکھا ہے: کربلا کے میدان میں پہلے خوش نصیب جو شہادت کے رُتبے پر پہنچے، وہ حضرت مُسْلِم بن عَوْسَجَہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ تھے۔ آپ یزیدی فوج میں اُترے، یزیدیوں کو انجام پر پہنچایا، اپنی بہادری کے جَوہَر دِکھائے، آخر زخم کھا کر جب زمین پر گِرے تو امامِ عالی مقام، امام حُسَینرَضِیَ اللہُ عنہاپنے دِیوانے کے پاس پہنچے، جسم زخمی ہے، خون بہہ رہا ہے، دَم لبوں پر ہے، اب بس آخری سانسیں تھیں، امامِ عالی مقامرَضِیَ اللہُ عنہان کے قریب پہنچے، حضرت حبیب بن مُظَہِّر رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی ساتھ تھے، حضرت حبیب نے فرمایا: اے مُسْلِم! اے میرے دوست! تمہیں مبارک ہو! شہادت کا رُتبہ پا کر جنّت میں جانے والے ہو۔