Book Name:Karbala Ke Jaan Nisaron
اس لمحے حضرت مُسْلِم بن عَوْسَجَہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا جوشِ ایمانی کیسا تھا، سنیئے! آپ نے امامِ عالی مقام امام حُسَینرَضِیَ اللہُ عنہکی طرف اشارہ کیا اور حضرت حبیب رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ سے فرمایا: اے حبیب! تمہیں میری وصیت ہے کہ میرے امام کی حفاظت کرنا، شہید ہو جانا مگر میرے امام کو آنچ مت آنے دینا۔([1])
اللہ! اللہ! یہ کیسی محبّت ہے...!! کیسا جوشِ ایمانی ہے، دَم لبوں پر ہے، بَس کچھ ہی منٹ کے بعد ان کے بچے یتیم ہونے والے ہیں، زوجہ بیوہ ہو جانے والی ہے، اس لمحے بھی نہ بچوں کی فِکْر ہے، نہ زوجہ کی فِکْر ہے، نہ کسی اور دُنیوی مُعَاملے کی فِکْر ہے، ہاں! فِکْر ستا رہی ہے تو وہ ایک ہی ہے کہ میں تو شہید ہو رہا ہوں، میں تو اپنے امام پر جان قربان کر رہا ہوں، اب میرے بعد امام کو آنچ نہ آئے۔
کربلا کے ایک اور جاں نثار کی ایمان افروز قربانی کا ذِکْر سنیئے!
حضرت وَہْب رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بنوکَلْب قبیلے کے نوجوان تھے، والِد صاحِب وفات پا چکے تھے، بُوڑھی، بیوہ ماں کے اکلوتے بیٹے تھے، نئی نئی شادِی ہوئے صِرْف 17 دِن ہی گزرے تھے، ایک دِن اَمِّی جان روتے ہوئے ان کے پاس آئیں، فرمایا: بیٹا! تُو میری آنکھوں کا نُور ہے، مجھے تیری جُدائی برداشت تو نہیں مگر آج وقت قربانی کا ہے، کربلا کے میدان میں نواسۂ رسول صبر و استقامت کا امتحان دے رہے ہیں، میری خواہش ہے کہ تُو بھی امام حُسَین رَضِیَ اللہُ عنہپر جان قربان کرے۔
ہونہار بیٹے نے ماں کی فرمائش پر فورًا لبیک کہا، نئی نَوَیلی دُلہن کو اپنے نیک ارادے