Book Name:Karbala Ke Jaan Nisaron
پیارے اسلامی بھائیو! کربلا کے جاں نِثَار بہت ہی بلند کردار، بڑے عِبَادت گزار، نیک اور پرہیز گار تھے۔ تاریخِ طَبری میں روایت ہے: سانحۂ کربلا کی آخری رات (یعنی جس رات کی صبح کو کربلا کا واقعہ پیش آیا ) تمام اَہْلِ کربلا نے یہ رات عِبَادت و ریاضت کرتے ہوئے گزاری، یہ خوش نصیب اس رات کبھی نفل نمازیں پڑھتے، کبھی تَوبہ و اِسْتِغْفَار کرتے اور کبھی اللہ پاک کے حُضُور رَو رَو کر گِڑ گِڑا کر دُعائیں کر رہے تھے۔([1])
سُبْحٰنَ اللہ! کیسا ذَوْق ہے کربلا والوں کا...!! دُشمن سامنے ہے، پانی بند ہے، حالات و واقعات یہی بتا رہے ہیں کہ زِندگی کی بَس آخری رات ہے، چاروں طرف سے مشکلات اور پریشانیاں گھیرے کھڑی ہیں اور یہ اللہ پاک کے نیک بندے ہیں کہ ذوق و شوق کے ساتھ، ہر مشکل ہر پریشانی کو بُھول کر اپنے رَبّ کے ساتھ لَو لگائے کھڑے ہیں۔
یہ غازی، یہ تیرے پُراَسْرَار بندے جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خُدائی
دو عالَم سے کرتی ہے بیگانہ دِل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن نہ مالِ غنیمت، نہ کِشْور کُشَائی([2])
وضاحت:لفظ خُدائی کا مطلب ہے: امامَت اور پیشوائی کرنا۔ یعنی اے مالِکِ کریم! یہ غازِی بھی تیرے عجیب بندے ہیں، ان میں ذوقِ امامت اور ذوقِ پیشوائی ہوتا ہے، ان کے دِل تیری محبّت سے سرشار ہوتے ہیں، اسی محبّت کے سبب یہ دونوں جہانوں سے بےپروا ہو کر بَس