Book Name:Karbala Ke Jaan Nisaron
قدم قدم پر قربانیاں دیتے رہے۔ بات یہی ہے کہ *وہ بلند رُتبہ حضرات کامِلُ الْاِیْمان تھے *وہ جوشِ ایمان کے جذبے سے سرشار تھے اور *آہ! آج کا مسلمان اَکْثَر کمزورئ ایمان کا شکار ہے *اُن کے پیشِ نظر ہر دَم اللہ و رسول کی رضا ہوا کرتی تھی مگر افسوس! آج کے مسلمانوں کی اَکْثَرِیّت کی اب اس طرف کوئی تَوَجُّہ نہیں *وہ اللہ و رسول کی محبّت سے سرشار تھے مگر آہ! آج کے مسلمانوں کی بھاری اَکْثَرِیَّت دُنیا کی محبّت میں غرق ہے *وہ اعلیٰ کردار کے مالِک ہوا کرتے تھے مگر آج اَکْثَر مسلمان صِرْف گُفتار (یعنی باتوں) کے غازی بن کر رہ گئے ہیں۔
*آہ! افسوس! ہم نے دُنیا کی محبّت میں ڈُوب کر *رضائے اِلٰہی کے کاموں سے دُور ہو کر *اپنی زندگیوں کو گُنَاہوں سے آلُودہ کر کے *اپنے پیارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی سُنتوں کا عامِل بننے کی بجائے غیروں کے فیشن کو اپنا کر اپنی حالت خُود آپ بگاڑ ڈالی ہے۔ افسوس! صد ہزار افسوس! ہم بےعملی کے سبب ذِلَّت و رُسوائی کے گہرے گڑھے میں بہت تیزی کے ساتھ گرتے چلے جا رہے ہیں۔
اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وَقتِ دُعا ہے اُمّت پہ تِری آ کے عجب وقت پڑاہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریبُ الْغُربا ہے
ہم نیک ہیں یا بَد ہیں پھر آخِر ہیں تمہارے نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی ہاں ایک دُعا تیری کہ مقبولِ خدا ہے
پیارے اسلامی بھائیو!ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اپنے کردار کا جائِزہ لینا چاہئے*ہم پر لازِم