Deen Ki Mali Khidmat Ke Fazail

Book Name:Deen Ki Mali Khidmat Ke Fazail

نے کہی ہے، اسی طرح ہم سب اس دُنیا میں مال و دولت کے مالِک نہیں بلکہ وکیل ہیں، اَصْل مالک اللہ پاک ہے، وکیل سے جو مال واپَس لیا جاتا ہے وہ قرضہ نہیں ہوتا، وہ تو مالک کی چیز ہوتی ہے جو اسے واپس لوٹائی جاتی ہے مگر اللہ پاک کی عنایت، اس کی رحمت اور ذَرَّہ نوازی دیکھئے! ارشاد ہوا:

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا

 تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان: ہے کوئی جو اللہ کواچھا قرض دے

عُلَما فرماتے ہیں: اس جگہ راہِ خُدا میں اِخْلاص کے ساتھ مال خرچ کرنے کو قرض سے تعبیر فرمایا گیا، اس سے یہ بات دِل میں بٹھانا مقصود ہے کہ جس طرح قرض دینے والا اطمینان رکھتا ہے کہ اس کا مال ضائع نہیں ہوتا اور وہ اس کی واپسی کا مستحق ہے، ایسے ہی راہِ خُدا میں خرچ کرنے والے کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ وہ اس خرچ کرنے کا بدلہ یقیناً پائے گا اور وہ بھی معمولی نہیں بلکہ ([1])

فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-

تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:تو اللہ اس کے لئے اس قرض کو بہت گنا بڑھا دے۔

ایک کے بدلے 20 لاکھ

حضرت عثمان نَہْدیرَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ تابعی بزرگ ہیں، آپ کو کسی نے بتایا کہ حضرت ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: بندۂ مومن کو ایک نیکی کے بدلے 10 لاکھ نیکیاں ملیں گی۔ (یعنی اگر ایک روپیہ راہِ خدا میں صدقہ کیا جائے تو ثواب میں یہ 10 لاکھ گُنا ہو گا)۔ حضرت عثمان نَہْدی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ مدینہ منورہ حاضِر ہوئے اور حضرت ابو ہریرہرَضِیَ اللہُ عنہ سے  پوچھا: کیا آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے؟ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے یہ نہیں کہا، میں نے تو


 

 



[1]...صراط الجنان،پارہ :2، سورۂ بقرہ،زیرِ آیت :245، جلد:1، صفحہ:367۔