
اسلاف کے قلم سے
انسانی زندگی کا دوسرا پہلو
*تاج العلماء مفتی عمر نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025
تاجُ العلماء حضرت علّامہ مولانا مفتی عمر نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ نے تقریباً 98سال پہلے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں انسانی زندگی کے دو پہلوؤں یعنی دنیا کے دلدادہ کفار کی زندگی اور رضائے الٰہی کے طالب مسلمانوں کی زندگی کا نہایت نفیس نقشہ کھینچا ہے۔
کفار کی زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کا تاریکی میں ڈوبا دل ان کی آنکھوں کو فانی دنیا اور اس کی رنگینیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھنے دیتا، ان کی ساری زندگانی صرف اور صرف ناپائیدار دنیا کی طلب میں اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے، ان میں سے دنیا کی من چاہی خواہشات پالینے والے بھی وقت نزع حسرت و افسوس اور رنج و قلق کی تصویر بنے ہوتے ہیں اور وہ جنہیں دنیا کی کامیابی بھی میسر نہیں آئی، ساری زندگی صرف تگ و دو ہی میں گزر گئی، ان کی حالتوں کا تصور مزید المناک و افسوسناک ہے کہ نہ دنیا کی عیاشیاں و لذتیں نصیب ہوئیں، نہ آخرت کی فلاح و کامیابی، نہ یہاں کے ہوئے نہ وہاں کے ہوئے!!
جبکہ مسلمانوں کی زندگی کا حال اس کے برعکس ہے،چنانچہ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
انبیا علیہمُ الصّلوٰۃ والسّلام کی بصیرت افروز تعلیم سے جو قلوب منور ہوتے ہیں ان میں طلبِ حق کا ایک جذبۂ صادقہ پیدا ہوتا ہے اسی کو وہ مقصدِ حیات اور حاصلِ زندگانی سمجھتے ہیں۔ ان کے تمام اعمال اسی مرکز کے اِردگِرد گردش کرتے رہتے ہیں ، رضائے الٰہی ان کا نصبُ العین (اصل مقصد) ہوتا ہے اور اس کے لئے جو محنت وریاضت کرنا پڑے اس کو وہ راحتِ روح جانتے ہیں۔ ان کی زندگی کا عرصہ کسی حالت اور کسی حیثیت سے بھی پورا ہو خواہ تخت شاہی پر حکومت کرتے کرتے موت آئے یا فقیرانہ بےسرو سامانی میں عمر گزرجائے، دَمِ آخر ان کی نظر کے سامنے عُقبیٰ (آخرت) کی کامیابی اور اُخْروی زندگی کی دائمی راحتوں کا روح کو مسرور کردینے والا منظر ہوتا ہے، موت ان کی نظروں میں دل کش امیدوں کے حصول کا دروازہ ہے اور دین دار آدمی مرتے وقت مطمئن ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کا قابل قدر نتیجہ ہے جو عنقریب اس کو ملنے والا ہے۔ دنیا میں جو کُلْفتیں (تکلیفیں) اور نا کامیاں پیش آئیں ہوں ان کا اس کے دل پر مطلق اثر نہیں ہوتا اور دنیا کے سروسامان اور دولت و ثروت کا فِراق اس کو رنجیدہ و غمگین نہیں کر سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ میں اس ناپائیدار اور فانی دولت میں آلودہ ہوکر اپنے خالق و مالک کو نہیں بھولا، فرائضِ عبدیت کے ادا سے میں نے سرتابی نہیں کی۔ رحمت و غفران کے وعدے اور نعیم مقیم کی بشارتیں اس کو عالمِ آخرت کا مشتاق اور آرزومند بناتی ہیں اور وہ بڑے اطمینان اور سُرور کے ساتھ منزل گاہِ دنیا سے قدم نکال کر سفرِ آخرت کرتا ہے۔
دنیا میں آتے وقت نیک و بد، مقبول و مردود ایک حال میں ہوتے ہیں، ان کی لوحِ فطرت نُقوشِ عمل سے سادہ ہوتی ہے اور ہر قسم کے افکار و خیالات سے دماغ خالی، دنیا پرست تو دَم بدم مفاسد میں مبتلا ہوتا جاتا ہے، اس کے دماغ پر کِبر و نَخْوَت کا تَسلُّط (یعنی غرور و تکبر کا قبضہ) ہوتا ہے، حِرص و طمع، بغض و حسد کے امراض سے اس کا دل بیمار ہو جاتا ہے اور بدترین جذبات میں وہ گرفتار ہوکر خدا فراموشی کرتا ہے(یعنی اللہ کو بھول جاتا ہے)، بہائم اور چوپایوں (یعنی جانوروں)سے زیادہ بدتر شیطانی زندگی جیتا ہے اور جو خیالات و جذبات اس کے ساتھ ہیں انہیں کے مطابق عمل کر کے دنیا کو گندہ کرتا ہے۔ اس طرح نامرادی کے دن پورے کر کے جہاں سے چل بستا ہے اور راحتِ عُقبیٰ (آخرت کے چین و سکون)سے محروم ہو جاتا ہے، لیکن! دین دار انسان کے سر میں کِبر و غرور کے بجائے انکسار و تواضع جاں گزیں (رچے بسے) ہوتے ہیں، رحم و کرم، محسن شناسی، سپاس گزاری، صبر وقناعت، رضا و تَوکُّل ، حسنِ اخلاق اس کے رفیقِ حال ہوتے ہیں، اس کا وجود پھول کی طرح اپنے ہمسایوں کو آرام پہنچاتا ہے اور کسی پر بار نہیں ہوتا۔ اس کے اخلاق کی خوشبو سے جہان مہک جاتا ہے، خدا شناسی اور ذوقِ عبادت اس کا سب سے پیارا محبوب ہوتا ہے اور ان ہی اوصاف کے حسبِ اقتضا اس کے تمام اعمال ہوتے ہیں اگر یہ خدا شناس بندہ ریل کے فرسٹ کلاس میں نہ بیٹھے، ہوائی جہاز میں نہ اڑے، تخت سلطنت پر مُتمکّن (بیٹھا) نہ ہو، زمین کے کسی ایک چپے کی مِلک و سلطنت کا دعویٰ نہ رکھے، حکومت کے مزے سے آشنا نہ ہو، دنیوی سروسامان کے لحاظ سے مفلسانہ زندگی گزارے مگر اس کے دل میں ذوقِ طاعت ہو، جَبیں پر نشانِ ناصیہ فرسائی (یعنی پیشانی پر سجدے کا نشان) ہو ، قدم راہِ حق پر ثابت ہوں، ہاتھ ظلم و جفا اور خیانت و نافرمانی کے جرائم سے پاک ہوں تو یہ سعید ہے، خوش نصیب ہے، کامیاب ہے، بامراد ہے۔
اس نے ترقی کی دنیا سے ایک کام آنے والا اندوختہ(سامان) لے لیااور آخرت کی دائمی راحتوں کا مژدہ اس کو مل گیا۔ جس طرح ایک مدرسے میں بہت طالب علم ہوں ان میں بعضے ایسے شیخی باز اور مُتَصَنّع(یعنی بناوٹی) ہوں جو ہر وقت اپنی نمود و نمائش اور اپنے آرام و راحت کی فکروں میں رہیں اور ان کا خیال یہ ہو کہ اچھا لباس پہننا، اچھی غذا کھانا ، آرام کی جگہ بیٹھنا ، دل لگی اور مزاح کی باتوں میں وقت گزارنا، روزانہ دونوں وقت سیر کرنا اور طرح طرح کے کھیلوں میں مشغول رہنا، استادوں کی حکومت کو نہ ماننا، ان کے احکام کی پابندی نہ کرنا یہی کامیابی ہے اور چند دوسرے طلبہ اس خیال میں محو ہوں کہ مدرسہ عیش و راحت کے لئے نہیں ہے بلکہ آئندہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے ایک جگہ ہے۔ وہ رات دن کتابیں رٹتے ہیں، نہ انہیں کھانے کی فکر ہو، نہ پہننے کا خیال ہو، نہ اپنی سجاوٹ بناوٹ میں وقت کا ضائع کرنا وہ گوارا کریں، نہ سیر و سیاحت کو نکلیں، نہ ہنسی اور دل لگی کی طرف کبھی انہیں توجہ ہو۔ جب کھانا مل گیا کھا لیا اور جیسا لباس میسر آیا پہن لیا۔ ان کو پہلے طلبہ حقارت (ذلت) کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کے میلے کپڑوں اور تھکا بدن، محنت کشیدہ چہروں کی افسردگی اور قیدیوں کی طرح ایک جگہ پڑارہنا دیکھ کر وہ ان پر طعن و طنز کرتے ہیں، ان کا مذاق بناتے ہیں، انہیں ذلیل سمجھتے ہیں، کم حیثیت اور بد حوصلہ جانتے ہیں، احمق اور بےوقوف ان کا نام رکھتے ہیں مگر! یہ سب کچھ سنتے ہیں اور صبر کرتے ہیں امتحان کا وقت بتادے گا کہ اپنے بناؤ سنگھار میں مشغول رہنے والے ناکام ہوگئے اور سر بلندی کا سہرہ ان کے سر رہا جن کو یہ ہمیشہ ذلیل سمجھتے اور احمق جانتے تھے۔ اسی طرح اگر ایک دین دار کو مغروران دنیا نظرِ حقارت سے دیکھیں تو وہ دھوکے میں ہیں انہیں معلوم نہیں کہ سعادت و خوش نصیبی اس کا حصہ ہے اور دنیا پرست اس سے محروم ۔
لَا خَلَاقَ لَهُم فِي الآخِرة(آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں)
انسان کی سعادت :
انسان کی سعادت یہ ہے کہ وہ دین دارانہ زندگی اختیار کرے، اسی کو کامیابی اور ترقی جانے اور غافلان خدا فراموش کے دھوکے میں نہ آئے۔ ضرورت کے لئے دنیا کے اسباب سے جو بھی تعلق ہو وہ خدا کے لئے ہو، قلب غافل نہ ہونے پائے اور دل کی لگن محبوب حقیقی سے لگی رہے، ایسی زندگی کو کامیاب زندگی کہتے ہیں اور اسی کی دعوت دینا ہر اس انسان کا فرض ہے جس کو انسانی شرافت سے بہرہ ہے۔(السواد الاعظم، رمضان المبارک1348ھ)
Comments