
سود کے مفاسد
*صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
ایک مسلمان سچا مسلمان شریعتِ طاہرہ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز اور پیارا سمجھتا ہے۔ اس پر مرمِٹنا فدا ہونا اپنی اعلیٰ ترین سعادت اعتقاد کرتا ہے۔ ایمانی جذبات کی اُمنگیں اس کو شریعت پر قربان ہونے کے لئے آرزومند بنائے رکھتی ہیں۔ وہ اپنے عمل سے اپنے طریق زندگی سے اسلام کی جاں نثاری کا ایک مجسم ثبوت ہوتا ہے۔
شرعِ اسلام نے سُود کو قطعی حرام کیا
شرعِ اسلام سود کو قطعاً حرام فرماتا ہے اور اس کا حلال جاننے والا شریعت کے حکم کا مخالف اور اس کے آئین کو توڑ کر حدودِ اسلام سے باہر ہو جاتا ہے اور شریعتِ طاہرہ ایسے شخص پر کفر کا حکم دیتی ہے۔
پناه با خدا یہ سرکشی کہ خداوندِ عالم جس چیز کو حرام فرمائے اسلام کا دعویٰ دار ہو کر کوئی شخص اس کو حلال کہے۔ تُف ہزار تُف!
اور پھر یہ کہنا کہ شریعت نے تجارتی سود کو حرام ہی نہیں کیا، شریعتِ مطہرہ اور قرآنِ پاک پر افترا (بہتان) ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
)اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-(
ترجمہ:وہ جو سو دکھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو۔([1])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سود خور روزِ قیامت مخبوط بدحواس کی طرح اُٹھیں گے اور ان کی یہ شان ہوگی کہ مصروع (یعنی مِرگی کے مریض) کی طرح اُٹھتے ہیں اور گِر پڑتے ہیں ۔ اُٹھتے ہیں اور اُٹھنا دشوار ہے جو سو دکھایا ہے پیٹوں میں بار ہے۔ اہل موقف کے لیے سو دخوروں کا یہ اُٹھنا اور گر پڑنا سود خوری کی علامت اور سو دخور کی ذلت ہے جو قبر سے اُٹھتے ہی اس کو گھیرے گی۔ حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے :
لَعَنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اٰکِلَ الرِّبٰو وَمُوْکِلَہٗ وَکَاتِبَہٗ وَشَاھِدَیْہِ وَقَالَ ھُمْ سَوَاءٌحضرت جابر رضی اللہُ عنہ نے فرمایا کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے والے، دینے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر سب پر لعنت کی، اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔([2])
قرآنِ پاک میں سود خوروں کا یہ حال بد مآل بیان فرمانے کے بعد اس کے سبب کا ذکر فرمایا ہے جس سے اس شخص کا حکم بھی صاف و صریح معلوم ہوتا ہے جو تجارتی سود کو مباح (جائز) کہتا ہے،ارشاد ہوا:
)ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-(
ترجمہ:یہ (عذاب ) اس سبب سے ہے کہ انہوں نے کہا کہ بیع سود ہی کی طرح ہے اور (حقیقۃ الامر یہ ہے کہ ) اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام فرمایا۔([3])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیتِ مبارکہ میں سود کی حرمت کا کیسا صاف و صریح غیر مشتبہ بیان ہے اور جو لوگ سود کو بیع کی طرح حلال قرار دیتے تھے ان کے بطلان کا اظہار ہے۔ ان آیات کو دیکھنا اور نابینا بن جانا، ان کے معانی کے بدلنے کی کوشش کرنا، دین کی، اسلام کی، خدا ورسول کی مخالفت اور کمال جرات و بے دینی ہے۔
اس کے بعد حضرت رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
)فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَاَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵)(
ترجمہ:جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آئی ( اور ممانعت سود کا حکم اسے ملا) پس وہ باز رہا (اور سود سے مجتنب ہوا) تو اس کے لئے ہے جو گزر چکا۔ (یعنی حرمت سود کے نزول سے قبل جو لے چکا اس پر مواخذہ نہ ہوگا) اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو ایسی حرکت پھر کریں ( سود کو حلال سمجھیں) وہ دوزخی اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔([4])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیرِ مدارک میں اس آیت کے تحت میں لکھتے ہیں : لِاَنَّهُم بِالاِسْتِحْلَالِ صَارُوا كَافِرين لِاَنّ مَن اَحَلّ مَاحَرَّمَ اللهُ عَزَّوَجَلّ فَهُوَ كَافِر۔ترجمہ:کیوں کہ وہ لوگ سود کو حلال جان کر کافر ہو گئے اس لئے کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال جانے وہ کافر ہے۔([5])
یہ ہے حکمِ قرآنی اور اس پر ان لوگوں کی یہ جرأتیں ہیں ۔ العیاذ باللہ !
اس کے بعد حضرت رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
)یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶)(
ترجمہ:اللہ تعالیٰ سود کو ہلاک کرتا ہے۔ اور خیرات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ کو پسند نہیں کوئی نا شکر بڑا گنہگار۔ ([6])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سود میں بکثرت مفاسد ہیں۔ اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم عطا فرمائے تو انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ :
(1) انصاف کی شریعت بلا عوض کسی کا مال لینے کو حلال نہیں کر سکتی ۔ سود بے عوض لیا جاتا ہے۔ زید نے دس روپے دیے تھے بارہ وصول کرتا ہے تو یہ دو محض بے عوض ہے۔ اس لئےان کا لینا حرام ہونا ہی چاہئے اور اس حکم میں عقل سلیم ذرا بھی تَردّد نہیں کرتی ۔
(2)سود تجارت کو نقصان پہنچاتا ہے کیوں کہ سرمایہ دار جب سود کے ذریعے بے محنت مشقت دوسروں کی دولت پر قابض اور ان کی جائیدادوں کا مالک ہو جاتا ہے تو وہ تجارت کی مشقتوں کو برداشت کرنا ناگوار سمجھتا ہے اور جس روپے کو تجارت میں لگا سکتا تھا اس کو جال بنا کر دوسروں کی دولتوں کا شکار کھیلنے کا لطف اٹھاتا ہے اور تجارتوں کی ترقی کے ساتھ عامۃ الناس کے جو منافع وابستہ تھے ان میں بہت کمی آجاتی ہے۔
(3)انسان کو روحانی طور پر بھی سود سے بہت نقصان پہنچتا ہے۔ احسان کرنے اور قرض حسن دینے کی عادتیں جاتی رہتی ہیں۔ اپنے کمزور غریب بھائی کو قرض دے کر اس کی دستگیری کرنا اور گری ہوئی حالت سے اُٹھانا ، بگڑے ہوئے کو سنبھالنا یہ سب موقوف ہو جاتا ہے اور اس طرح دنیا برادرانہ رحم کی پاکیزہ خصلت سے محروم ہو جاتی ہے اور برادرانہ ہمدردی کا خون ہو جاتا ہے۔
(4)حرص کا بدترین جذبہ جو انسان کی روحانیت کے لئے مہلک بیماری ہے نہایت قوی ہو جاتا ہے اور سود خور ہر شخص کے مال ، جائیداد، مکان کو حرص و طمع کی نظر سے دیکھتا ہے۔
اپنے بھائیوں کے لئے مبتلائے مصیبت ہونے کی تمنا کرتا ہے کہ وہ کسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہوں اور مجھ سے قرض لیں تا کہ میں ان کی جائیدادوں اور املاک پر قابض ہوں ۔
(5)ظلم اور درندہ خصالی سود خور انسان کی طبیعت بن جاتی ہے اور دوسروں کی تباہی اور بربادی سے خوش ہوا کرتا ہے۔ ایک آدمی اپنے تَمَوُّل (مال دار بننے) کی حرص میں ایک پورے خاندان اور اس کے متوسلین کو جو دنیا میں عزت و حرمت کے ساتھ عیش و راحت کی زندگی بسر کرتے تھے نان شبینہ (روٹی) کا محتاج اور در بدر پھرنے اور بھیک مانگنے کے قابل بنا دیتا ہے اور اس طرح ان بے کسوں، مجبوروں پر ظلم کرتا ہے کہ کبھی اسے ان کی تباہی اور بربادی اور صد ہا انسانوں کی مصیبت و نَکْبَت (غربت) پر ترس نہیں آتا۔ ہندوستان میں مسلمان اس کے خوب تجربے کر چکے ہیں اور سیاہ دل سود خوروں کے ظلم و جفا کے خوب مزے لے چکے ہیں۔ صدہا ناز پَروُرْدے (یعنی بہت سے نازوں میں پلے بڑھے) آج ان ظالموں کے بے رحمانہ سفاکیوں کی بدولت دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔
اسلام اس سیاہ دلی، بد باطنی، درندہ خصالی، جفا شعاری، طماعی، حرص روح کو تاریک کرنے والے جذبات سے اپنے نیاز مندوں کو بچاتا ہے اور رحم، ہمدردی، سلوک نیک جیسے پاک جذبات پیدا کرتا ہے۔ والحمدُ لله ربِّ العالمین۔
تعجب یہ ہے کہ اس صدی میں عملی طور پر سود کے مہلک اثر اور تباہ کن نتائج کا تجربہ ہو جانے کے بعد پھر کوئی شخص سود کو مفید ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کو راہ راست دکھائے اور گمراہی سے بچائے۔([7]) آمین
Comments