اِصلاحِ خلق اور اصولِ ہدایت

اسلاف کے قلم سے

اِصلاحِ خلق اور اصولِ ہدایت

*صدرالافاضل مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی

ماہنامہ اگست 2024

خَلق کی اصلاح کے لئے خصائلِ رذیلہ( یعنی بری عادتوں ) اور  افعالِ قبیحہ سے باز رکھنے اور خراب عادات اور بُرے اطوار کو مٹا ڈالنے کی تدبیریں ضروری ہیں جب تک یہ نہ ہو تو اُس وقت تک انسان مکارمِ اخلاق و محاسنِ صفات کے ساتھ متصف نہیں ہو سکتا اور دنیا کی عملی حالت اوجِ خوبی پر نہیں پہنچ سکتی۔

اصلاحِ خلق کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے مقدس نفوس پیدا کئے ہیں جو خود ذمائم صفات و قبائح افعال (بُرے کاموں)سے بالکل پاک ہیں اور اُن کی لوحِ فطرت پر کوئی بھی دھبہ نہیں ہے۔ اس گروہ کو” انبیا“ اور ان کی اس طہارت کو” عصمت“ کہتے ہیں۔ اس گروہِ پاک انبیاء کی تعلیم بہت گہرے، عمیق اور موثر اصولِ ہدایت پر مبنی ہوتی ہے بلکہ ان کی تعلیمات سے بداہت و حکمت کے اُصول دریافت کئے اور جانے جاتے ہیں۔

بد عملی کو روکنے کے لئے اُس کے مقدمات پر گرفت کرنا اور ان کو ممنوع ٹھہرانا، اس بدی کے اِنسِداد (روک تھام) کی بہترین تدبیر بلکہ ضروری امر ہے اور دنیا کی قومیں اس پر عامل بھی ہیں کہ جس چیز کو وہ روکنا چاہتے ہیں پہلے اُس کے مقدمات کی بندش کر لیتے ہیں۔ اگر مقدمات کی بندش نہ کی جائے تو پھر کسی چیز کا روکنا سہل اور آسان نہیں ہے۔ (بندہ)ایک دیوار کو گرنے سے بچانے والا پُشتہ (دیوار کو گرنے سے بچانے والی  سپورٹ) بناتا ہے، پانی کے جمع ہونے کی بندش کرتا ہے، اُس کے گزرنے کا راستہ ٹھیک کر دیتا ہے، تب دیوار قائم اور مضبوط رہتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے اور پانی بنیاد میں جاتا رہے تو پھر دیوار کسی امداد سے بھی قائم نہیں رہ سکتی۔

حکومتوں کو باغیوں سے خطرہ ہوتا ہے تو اس کے لئے پہلے سے حفاظتی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ خلافِ قانون مجمع روکے جاتے ہیں۔ تقریروں اور تحریروں پر احتساب قائم ہوتا ہے۔ خفیہ ریشہ دوانیوں (سازشوں) کا تجسس کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو بغاوت کے مواد بڑھتے بڑھتے ایسی قوت کے ساتھ سامنے آئیں کہ پھر ان کو زیر کر لینا حکومتوں کے لئے دُشوار ہو جائے اور جن حکومتوں نے اس کی طرف سے تغافل کیا ہے اُن کا انجام یہی ہوا کہ وہ تباہ ہوگئیں۔ امراض سے بچنے کے لئے پہلے سے صفائی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ خطرناک امراض کے لیے پہلے سے ٹیکے لگا دیئے جاتے ہیں اور جسموں میں قبولِ مرض کی صلاحیت تا بہ مقدار نہیں چھوڑی جاتی اور جس چیز سے بھی مرض پھیلنے یا اس کے ترقی کرنے کا اندیشہ ہو اس کو دفع کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے طاعون کی بیماریوں کو محفوظ رقبوں میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔

غرض دنیا میں حفظِ ما تقدم کی تدابیر نہایت عاقلانہ وحکیمانہ فعل مانا جاتا ہے اور جس چیز کی حفاظت منظور ہوتی ہے۔ اُس کے اسباب و مقدمات کی بندش کی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پیش آنے والے اُمور کی کوئی سبیل باقی نہ رہے اور جو شخص ایسی تدابیر سے غافل رہے وہ اربابِ خِرد(اہلِ عقل) کے نزدیک نادان، سفیہ (بےوقوف)،  نافہم کہلانے کا مستحق ہے۔

 ہادیوں(یعنی ہدایت کی دعوت دینے والوں) کی نظر اعتقاد، اخلاق و اعمال پر ہوتی ہے اور ان کی توجہ ان سب کو فساد سے محفوظ رکھنے پر ہوتی ہے۔ اعمال کے لئے کچھ مقدمات ہوتے ہیں، جو انسان کے لئے ان کے ارتکاب کا باعث ہوتے ہیں اور باوجود عمل کی برائی اور اُس کے قبح سے واقف ہونے کے بھی وہ امور آدمی کو فعلِ بد کا شوق دلاتے ہیں اور طبیعت کو دَم بہ دَم اُس کی طرف کھینچتے ہیں جو ہادی افعال قبیحہ کا انسداد کرنا چاہتا ہے اُس کے لئے باقتضائے حکمت لازم ہے کہ پہلے وہ مقدماتِ فجور کو روک دے۔ اگر ایسا نہ کیا تو قبائح افعال کے روکنے میں کامیابی ہرگز نہ ہو سکے گی۔

مثلاً زنا ایک فعلِ بد ہے، نہایت قبیح ہے، اس کی قباحت پر تمام عالم کے ہر ملت و مذہب کے لوگ متفق ہیں بلکہ لَا مذہب بھی جو کوئی ملت نہیں رکھتے مگر ذراسی عقل و شائستگی ان میں ہے وہ بھی اس کو نہایت قبیح جانتے ہیں حتّٰی کہ جانوروں میں بھی جو طبیعتِ سلیمہ رکھتے ہیں، وہ اپنے جوڑے کے سوا دوسرے کی طرف التفات (توجہ) نہیں رکھتے۔ نسلوں کا استحفاظ (نسلوں کی حفاظت)، خاندانوں کی بقاء قوموں کی حفاظت اس پر منحصر ہے کہ حرام کاری معدوم کر دی جائے۔ زنا انسان سے حیا و غیرت کی بہترین صفت کو دور کر دیتا ہے اور اُس کے نفس کو نہایت بے شرم اور ناپاک بنا دیتا ہے۔ اس سے بہت سی خون ریزیاں ہوتی ہیں اور یہ ایک جرم بے شمار جرموں کے ارتکاب کا باعث ہو جاتا ہے۔ زنا سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اُس کی زندگی کس قدر صعوبتوں(مشکلات) کا شکار ہوتی ہے۔ نہ اُس کا کوئی باپ ہے نہ وہ کسی کو باپ بتا سکتا ہے۔ نہ اپنے نسب کو کسی کی طرف منسوب کر سکتا ہے۔ نہ شفقتِ پدری و تربیتِ آبائی و خاندانی کا فیض اسے حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ تمام عمر دنیا کی نگاہوں میں حقارت وذلت کے ساتھ بسر کرتا ہے۔ زنا کی برائیاں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کسی مختصر تحریر میں ضبط کیا جا سکے اور زیادہ تفصیل کی حاجت بھی نہیں ہے کیوں کہ اس فعلِ قبیح کے شرم ناک عیب اور بدترین جرم ہونے میں کسی کو کلام نہیں ہے۔ اور بالاعلان کوئی شخص بھی اس کو اچھا کہنے والا نہیں۔

تو جب دنیا نے تسلیم کر لیا کہ یہ بدترین عیب ہے، نہایت قبیح جرم ہے، اور نسلِ انسانی کی حفاظت و بقا اور فسادوں کا دفع اور طبیعتوں کی طہارت اور انسان کی روحانی ترقی، اس کے انسداد پر موقوف ہے تو ہادی کے لئے ضروری ہوا کہ وہ ایسے فعل کے انسداد میں پوری توجہ صَرف کرے اور اس کو روکنے کی تمام تدابیر کام میں لائے تو اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کے محرکات کیا کیا ہیں؟

اور کون سے اعمال و اشغال ایسے ہیں جو انسان کو ایسے فعلِ قبیح کے ارتکاب پر ابھارتے ہیں جو فعل بھی اُس کا مُمِد و مُعِین (مددگار) ہو سکتا ہو اس کا روک دینا، زنا کے روکنے والے کے لئے بہ مقتضائے حکمت ضروری ہوگا۔ اس لیے اطبائے روحانی اور ان کے سردار یعنی انبیائے کرام علہیم الصلٰوة والسلام نے تمام مقدماتِ فجور کو ممنوع فرما دیا۔ گانا بجانا، ولولہ انگیز عاشقانہ نظمیں موسیقی کے آلات و انداز میں ادا کرنا مہیج شہوات ہے۔ حرام کاری کی روکنے والی شریعت اُس کو کب گوارا کر سکتی ہے!اس لیے اس قسم کا راگ اور باجا جو شہوت انگیز ہو ممنوع فرمایا گیا۔ تصویروں کے ذریعہ سے بے حیائی اور بےحجابی اور بدفعلی کے ذوق پیدا کئے جاتے ہیں اگرچہ تصویروں میں اور مفاسد بھی ہیں مگر تصویر کو ممنوع کردینے سے فجور کے ایک بہت بڑے مقدمہ کی بندش ہو گئی۔ عورتوں کی بےحجابی، ان کا بےپردہ سامنے آنا، دل پسند وضع اور لباس میں مردوں کے سامنے رونما ہونا بالیقیں بلکہ قوائے شہوانیہ میں ہیجان پیدا کرتا ہے، حرام کاری، فتنے فساد کا باعث ہے۔ عورت اور مرد دونوں کے جذبات اس سے خراب ہو جاتے ہیں اور نفسِ شہوت پرست کو مبتلائے معصیت ہونے کے بہت سے موقع ہاتھ آتے ہیں۔ اس لئے جس ہادی کو حرام کاری کا بند کرنا منظور ہے اُس نے پردہ لازم کیا۔ زمانوں کے بدلنے سے حالات بھی کچھ بدل جایا کرتے ہیں جس زمانے میں انسان سادہ زندگی کے عادی تھے، طبیعتوں میں شرم و حیا تھی، عورتیں موٹا اور تمام جسم کو ڈ ھکنے والا لباس پہنتی تھیں۔ باوجود اس کے جن موقعوں پر مرد ہوں، وہاں سے بچتی تھیں، بے پڑھی تھیں، عشقی قصے کہانیاں ناول سننے دیکھنے کا انہیں کوئی موقع نہ تھا، اس وقت پردہ اتنا ضروری نہ تھا جس قدر آج ضروری ہے۔ اگر دنیا کی قومیں اور دوسری ملتیں بھی زنا کاروکنا ضروری سمجھتیں اور اس کے انسداد کا قصد رکھتیں، تو یہ تمام چیزیں جو ذکر کی گئیں وہ انہیں بھی روکنی ہی پڑتیں۔

مگر آج دیکھا جا رہا ہے کہ عورتوں کو بے قید، بے باک، بے شرم، بے حیاء، شوخ بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی حرص و شہوت کو ابھارنے والے تمام آلات کام میں لائے جاتے ہیں۔

اسی طرح لڑکوں کی ایسی فساد انگیز تر بیت کی جاتی ہے، برہنہ تصویر یں، بے حیائی کی تصویریں، بدکاریوں کی تصویریں پھیلائی جاتی ہیں، عورتوں کا لباس نیم برہنگی تک تو عام کیا جا چکا ہے، اور زمانے کی موجودہ رفتار بتا رہی ہے کہ اس حیا سوز وحشت کا وقت بھی دور نہیں ہے جب عورتیں جانوروں سے زیادہ بد شعوری کے ساتھ برہنہ پھرا کریں گی۔ تعلیم کے حیلوں سے انہیں پردہ دار مکانوں کی حفاظت سے نکالا جاتا ہے۔ قسم قسم کے گانے سننے کا موقع دیا جاتا ہے۔ گراموفون (ریکارڈ پلیئر)کے ریکارڈوں میں بہت حیا سوز اور شہوت انگیز نظموں کے گانے بھرے جاتے ہیں اور وہ عورت مرد سب سنتے ہیں۔ سنیما (کیبل اور انٹر نیٹ کے ذریعے فلموں،ڈراموں وغیرہ) میں عشقی سانگ (Song) اور فاسد جذبات پیدا کرنے والے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ ناول جس زبوں حالت کو پہنچ گئے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ان تمام کاموں کی حمایت وہی کرتے ہیں جو شہوت پرستی میں اندھے ہو گئے ہیں اور حرام کاری کے لئے موقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔

شریعت کے حامی جو حرام کاری کو روکنا چاہتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ تمام مفاسد کا سدِّ باب کریں لیکن ان کی یہ پاک کوششیں شہوت پرستوں کو اپنے مقصد میں خلل اندازی نظر آتی ہیں اور وہ ان کی جان و آبرو کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپی ہواؤں میں پرورش پانے والا بے قید طبقہ کُل کا کُل علماء کا دشمنِ جان ہو گیا ہے اور رات دن علماء کے شکوے، شکایت اور ان کی بدگوئی کو اس دشمنِ حیا و انسانیت گروہ نے اپنا وظیفہ بنالیا ہے۔ اخبار ہیں تو ان میں علماء پر تبرّا بھرا ہوا ہے۔(میڈیا، سوشل میڈیا اور) مجلسیں ہیں تو ان میں علما پر سَب وشتم کیا جا رہا ہے مگر فرضِ ہدایت ادا کرنے والے کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے اور وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں سرگرم و مستعد ہیں جو مسلمان غیرت و ناموس کو عزیز رکھتے ہیں اُن کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی آبرو بچانے کے لئے ان مفاسد کو مٹانے میں اپنی تمام طاقتیں صرف کر دیں۔عورتوں کے پردہ کا اہتمام بہت بلیغ ہونا چاہئے۔ سنیماد یکھنے سے ہر شخص کو احتراز لازم ہے۔ گراموفون (اور دیگر آلات سے میوزک)سننا چھوڑ دو۔ اگر ایسا نہ کیا تو انسانی شرافت اور شرعی حرمت کی حفاظت نہ ہو سکے گی۔

تعلیم کی آڑ میں بھی عورتوں کو بے پردہ کرنے کے لئے سرمستانِ شہوت(شہوت  میں مَست) بہت کوشش کر رہے ہیں مسلمان ان مغالطوں سے بچیں اور ان دشمنانِ ملت وحمیت کے ہتھکنڈوں کو پہچانیں، اور انجام کار پر نظر ڈالیں اور اس بلائے عام کو دور کریں اور علمائے دین کے ساتھ ارتباط و عقیدت بڑھائیں اور ان کے احکام کے سامنے سر جھکائیں۔ کبھی غور کریں کہ سنیما اور گراموفون وغیرہ محرکات شہوت بہیمت سے مسلمانوں کو کتنا نقصان پہنچ چکا؟ان کی کتنی دولتیں بےکار، ضائع ہوچکیں۔ کتنا روپیہ روز مرہ لٹ رہا ہے، کیسے فاسد افعال اور بُرے اخلاق پیدا ہور ہے ہیں۔ مزدور طبقہ اور چھوٹی چھوٹی حیثیت کے لوگ اپنی تمام مزدوری ان لغویات میں برباد کر دیتے ہیں اور ان کے گھر والے اور بچے فاقہ اور تنگی کی مصیبتیں اٹھایا کرتے ہیں۔ ان کی عقلوں پر افسوس ہے!!!

جوان تباہی انگیز طوفانوں کو ترقی کہتے ہیں اور ایسے مفسدات کے رواج دینے میں سعی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت فرمائے کہ مسلمانوں کو بالکل تباہ کر ڈالنے سے وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہو جائیں۔  آمین(مقالاتِ صدرالافاضل، ص588تا593 ملتقطاً)


Share