کام کی باتیں

فریاد

کام کی باتیں

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا حاجی محمد عمران عطاری سلمہ الباری نے مدنی چینل کے سلسلے ”Minus Plus “میں مختلف موضوعات پر” کام کی باتیں“ بتائیں ان میں سے19 پیش کی جارہی ہیں:

(1)کسی کی غلطی پر کوئی یہ کہتا ہے کہ جب تک میرے سامنے ناک نہیں رگڑو گے معاف نہیں کروں گا تو یہ اس کی سوچ، مزاج اور طبیعت میں تنگی اور علم کی کمی ہے۔ اگر اسے معاف کرنے اور درگزر کرنے کے فضائل معلوم ہوجائیں تو وہ معاف کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

(2)اگر آپ کسی کو معاف نہیں کریں گے تواس میں خود آپ ہی تکلیف اٹھائیں گے،کسی کی خوشی یا غمی میں وہ آیا تو آپ وہاں نہیں جائیں تواس نفرت اور ناراضی سے آپ اپنا ہی دل جلا ئیں گے، بالفرض یہ مان لیا جائے کہ اس نےآپ پرظلم کیا، اسی نے تکلیف پہنچائی مگر آپ یہ سوچئے کہ (حدیث پاک میں) معاف کرنے والے کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

(3)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صرف اپنے فرامین میں معاف کرنے کی ترغیب نہیں دلائی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   کی سیرت میں بھی اس طرح کے کئی واقعات موجود ہیں، صحابۂ کرام،اہلِ بیتِ اطہار (رضی اللہُ عنہم)بھی معاف کردیا کرتے تھے اور معاف کرنے والے تو اللہ پاک کے پسندیدہ بندے ہیں۔

(4)کاروبار میں پلس یہ ہے کہ آپ حلال کمائیں اور مائنس یہ ہے کہ حرام کمائیں۔

(5)اگر آپ تجارت کرتے ہیں تو اس میں پلس یہ ہے کہ نیت اچھی رکھئے، مسلمانوں سے خیر خواہی کیجئے اور ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیے۔

(6)اگرآپ ملازمت کرتے ہیں اورسیٹھ کے ساتھ بددیانتی کرتے ہیں،مال چوری کرتے ہیں، جاب کی ٹائمنگ میں ڈنڈی مارتے ہیں تو یہ ملازمت میں مائنس پوائنٹ ہے۔

(7)اگرکوئی تاجر اپنے کسٹمر سے اور اس کے سامنے اپنے ملازم سے تو اچھے اخلاق سے بات کرتا ہے مگر گاہک کے جاتے ہی اسی ملازم سے بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ہے تو یہ مائنس پوائنٹ ہے، بااخلاق شخص تو ہر وقت اور ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا ہوتا ہے۔

(8)اگر کاروبار میں کہیں رکاوٹ اور پریشانی آئے تو وہ راستہ اختیار نہ کریں جس سے اللہ اور رسول نے منع کیا ہے دیکھا جاتا ہے کہ اگر کاروبار میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو تاجر اس طرف نکل جاتا ہے جس سے اللہ رسول نے منع کیا ہوتا ہے۔

(9)رزق میں برکت کے لئے یَاغَنِیُّ کا ورد کیجئے،گھر میں داخل ہوں تو سلام کیجئے اگر کوئی نہ ہو تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّکہیں اور ایک بار سورۂ اخلاص پڑھئے اِن شآءَ اللہ کشادگی کے ساتھ رزق ملے گا۔

(10)جب بھی آپ کو رزق میں فراوانی چاہئے تو اپنی صلۂ رحمی کو چیک کیجئے، رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک کو دیکھئے کیونکہ صلۂ رحمی کرنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے،عمر میں برکت ہوتی ہے اور بری موت سے حفاظت ہوتی ہے۔

(11)میں ایک شخص کو جانتا ہوں جس نے اپنا نیا کاروبار شروع کیا تو نفع میں فیصد کے اعتبار سے اپنی بہن کا ایک حصہ مقرر کرلیا، وہ بتاتے ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میراکاروبار کہاں بادلوں میں چلا گیا،میرا یہ حُسنِ ظن ہے کہ اپنی بہن کے ساتھ صلہ ٔرحمی کرنے کی وجہ سےمیرا کاروبار بڑھتا ہی چلا گیا۔

(12)جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو وہ (بیمار ہونے کی وجہ جاننے کے لئے) کھانے پینے، آنے جانے ،آب وہوا،موسم کی تبدیلی پر غور کرتا ہے جب کوئی وجہ سامنے آتی ہے تو اس پر کنٹرول کرتا ہے، اسی طرح جب کاروبار میں پریشانی آتی ہے تو غور کرنا چاہئے کہ میں جھوٹ،بددیانتی،نماز یا جماعت تو نہیں چھوڑ رہا، صلۂ رحمی میں کوتاہی تو نہیں کررہا، میرے مال میں کسی یتیم، بیوہ وغیرہ کا مال ناحق تو شامل نہیں ہوگیا،(کیونکہ)یہ سب بھی مائنس چیزیں ہیں۔

(13)اپنی لائف کو بیلنس رکھئے ایسا نہ ہو کہ کاروبار بڑھ جائے تو گھروالوں، رشتہ داروں کے ساتھ معاملات ڈسٹرب ہوجائیں بلکہ اپنی فیملی اور رشتہ داروں سے ملاقات  کا بھی وقت نکالنا ضروری ہے۔

(14)لوگ اپنا کاروبار بڑھانے کے لئے اپنی تجارتی مثبت صلاحیت کے بجائے منفی صلاحیتوں اور چال بازیوں سے دوسرے کا کاروبار توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ کسی کا رزق لے ہی نہیں سکتے رزق کا بڑھنا گھٹنا اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔

(15)اگرکوئی قبر وحشر کے معاملات میں غور و فکر کے سبب سے پریشان ہے تو یہ ایک پلس پوائنٹ ہے کہ صحابۂ کرام بھی اس پر غور و فکر کی وجہ سے رویا کرتے تھے کہ ہمارا کیا بنے گا ؟اس سے روحانیت اوراس کے ثواب میں بھی اضافہ ہوگا۔

(16)لڑکا اگر نان نفقہ دے سکتا ہے اور لڑکی سمجھدار ہے اور گھر کو سنبھالنے کے قابل ہوجائے تو ماں باپ کو ان کی شادی کروادینی چاہئے اور بلاوجہ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

(17)شادیوں میں بلاوجہ کی تاخیر سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں،بعض اوقات اسٹڈی کے نام پربھی اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ عمریں نکل جاتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ رشتے آنا بند ہوجاتے ہیں۔

(18)ساس کو چاہئے کہ بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے اور بہو کو بھی چاہئے کہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے،جس طرح کبھی بیٹی ماں سےکسی بات پر روٹھ جاتی ہے تو ماں کو برا نہیں لگتا اسی طرح کبھی ماں بیٹی کو ڈانٹ دیتی ہے تو بیٹی کو برا نہیں لگتا تو ساس بہو میں بھی اس طرح کی Understanding ہوگی تو گھر امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

(19)والدین کا اولاد سے پوچھ گچھ کرنا ان پر شک یا بےاعتمادی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں اولاد کی بہتری ہوتی ہے، اگر کسی کامیاب شخص کہ جس کا معاشرے میں ایک نام ہو اس سے پوچھا جائے تو وہ یہی کہے گا کہ والدین کی روک ٹوک کرنے کی وجہ سے آج میں اس مقام پر پہنچاہوں۔


Share