روزانہ ندّی تیر کر بچّوں کو پڑھانے آتا 7نومبر 2013 کو اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ہند کے ایک گاؤں میں رِہائش پذیر ایک استاد صاحب گزشتہ 20سال سے روزانہ 70میٹر چوڑی ندّی تیر کر پار کرتے ہیں اور دوسرے گاؤں میں پڑھانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کبھی پہنچنے میں تاخیر نہیں کی اور نہ ہی کبھی کوئی چُھٹّی کی ہے۔ برسات کے موسم میں ندّی کا پانی 20فٹ تک ہوجاتا ہے وہ پھر بھی استقامت سے پڑھانے پہنچتے ہیں، ندّی کے کنارے آ کر اپنا سارا سامان ایک بیگ میں ڈال لیتے ہیں اور ربڑ کی ٹیوب کے ذریعے ندی پار کرتے ہیں۔ سڑک کے ذریعے فاصلہ سات کلومیٹر ہے جس کے لئے دو سے تین بسیں تبدیل کرنا پڑتی ہیں کیونکہ جس گاؤں میں پڑھانے جاتے ہیں وہ تین طرف سے ندّی میں گھِرا ہوا ہے جبکہ ندّی پار کر کے جانے میں یہ فاصلہ صرف ایک کلو میٹر رہ جاتا ہے اس لئے وہ ندّی کے راستے پڑھانے کے لئے جاتے ہیں۔(دنیا اخبار آن لائن)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اَساتِذہ (Teachers) کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقّی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔ اساتِذہ کا شمار قوم کے باشعور طبقے میں ہوتا ہے۔ اساتِذہ کے فرائضِ مَنْصَبِی میں تعمیرِ قوم، کردار سازی، تزکیۂ نفس، قیادت کی تیاری، طلبہ کو اعلیٰ نظریات سے مُتَّصِف کرنا، حق و باطل، جائز و نا جائز اور حلال و حرام کا شعور بیدار کر نا بھی شامل ہیں۔ انہی اہم ذمّہ داریوں کی وجہ سےدینی اُستاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا۔
کہتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کے مُحافِظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے اساتذہ کی ہے۔استاد و معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اَخلاقی تَمَدُّنی اور اُخروی نیکیوں کی چابی اس کے ہاتھ میں ہے اور ہمہ قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔
استاد اور معلّم ہونا بہت عزّت و شرف کی بات ہے، اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بنا کر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ،ج 1،ص150،حدیث:229)
نسلِ انسانی کی بہترین پرورش کی ذمّہ داری بنیادی طور پر دو لوگوں پر ڈالی گئی ہے (1)والدین اور (2)اساتذہ پر۔
ایک والد اور والدہ کی بنیادی ذِمّہ داریاں کیا ہیں اور بچّوں کی تربیَت میں ان کا کردار کیا ہونا چاہئے؟ اس کے لئے ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ (شعبان المعظم1440ھ تا ذوالحجۃ الحرام1440ھ) کا سلسلہ ”کیسا ہونا چاہئے!“ پڑھئے، ([1])ذیل میں ایک کامیاب استاد کی اہمیت و ذمّہ داریوں کا بیان کیا جاتاہے۔
ایک بہترین اور معاشرے کے خیرخواہ استاد کے اوصاف کو چارعنوانات میں تقسیم کیا جاسکتاہے :(1)استاد کا کردار و گفتار (2)اسباق کی تیّاری اور پڑھانے کا انداز (3)طلبہ کے ساتھ تعلّقات (4)طلبہ کی صلاحیتوں اور میلانِ طبعی کی پَرَکھ (پہچان)۔
(1)استاد کاکردار و گفتار
٭کامیاب ترین استاد وہ ہے جو اپنے علم پر پہلے خود عمل کرے تبھی طلبہ اس کی باتوں پر عمل کریں گے، کسی دانا کا قول ہے کہ عالِم جب اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو اس کی نصیحتیں دلوں سے اس طرح پھسل جاتی ہیں جس طرح سخت چٹان سے بارش کے قطرے پھسل جاتے ہیں٭استاد کو حُسنِ اَخلاق کا پیکر ہونا چاہئے تاکہ ذہین و غیر ذہین تمام طلبہ اس سے استفادہ کرسکیں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ سخت رَوَیّے والے اساتِذہ کے غیر ذہین شاگرد ناکامی ہی کی طرف گرتے جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ استاد کے سامنے اپنا ما فی الضّمیر (یعنی دلی بات) نہ کہہ سکنا اور سوال کرنے سے ڈرتے رہنا بھی ہوتی ہے٭وقت کی پابندی کا سب سے بڑا عملی نمونہ ایک استاد کو ہی ہونا چاہئے، کیونکہ جس قدر وہ پابندِ وقت ہوگا، اس کے شاگرد بھی وقت کی پابندی کریں گے، پھر یہی پابندِ وقت طالبِ علم عملی زندگی میں بھی وقت کے قدردان ثابت ہوں گے٭انسانی زندگی میں نشیب و فراز (اُتارچڑھاؤ) آتے رہتے ہیں، پریشانی، بیماری اور ضروریاتِ زندگی کے معامَلات ہر کسی کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن طبیعت کی ہلکی پھلکی ناسازی اور ایسے کام جو کوئی دوسرا بھی کر سکتا ہے ان کی وجہ سے چُھٹّی کرلینا یا درسگاہ دیر سے پہنچنا مُناسب نہیں، ایک اچّھے استاد کے پیشِ نظر قوم کا مستقبل ہوتا ہے جو ایک چھٹّی کیا ذرا سی تاخیر سے بھی متأثر ہوتا ہے۔
(2)اسباق کی تیّاری اور پڑھانے کا انداز
٭جس فنّ اور عِلْم میں مہارت ہو وہی پڑھائے، خود سیکھنے کے لئے بچّوں پر تَجْرِبات نہ کرے بلکہ پہلے خود اچّھی طرح پڑھے، سیکھے، سمجھے پھر بچّوں کو پڑھائے٭بے شک معلّم کا رُتبہ بہت عظیم ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر معلّم ہر پہلو سے کامل و اکمل ہو، سیکھنے سکھانے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے اس لئے ایک استاد کو چاہئے کہ اپنی کمی اور کوتاہی کو اعلیٰ ظرفی سے تسلیم کرے اور ان پر قابو پانے کی کوشش کرے٭اساتذہ کی اوّلین کوشش اپنے شاگردوں کی کامیابی ہونی چاہئے اور اس کیلئے اساتِذہ کو بچّوں کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم میں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بچّوں کی تعلیمی بنیادیں ہیں٭استاد کا فرض بنتا ہے کہ جو بھی سبق پڑھانا ہے اوّلاً اچّھی طرح مطالعہ کرے، سمجھے اور سمجھانے کے لئے تیاّری کرے، جس قدر ہو سکے آسان انداز میں سمجھائے، سبق کو آسان بنانے کے لئے مثالیں بیان کرے اور طلبہ کی ذِہْنی سطح کا لازماً خیال رکھے٭ہر شعبۂ زندگی میں قابل افراد مُہَیَّا کرنے کے لئے تعلیم و تربیَت بہت ضروری ہے اور تعلیم و تربیت کی اہم ذمّہ داری معلّم و مدرّس پر عائد ہوتی ہے۔ یوں تو ہر فنّ اور مضمون کے استاد کو اپنے مضمون کے اعتبار سے محنت کرنی اور کروانی ضروری ہے لیکن اسکول کالج میں اسلامیات اور اس سے متعلقہ مضامین کے اساتِذہ کی ذِمّہ داری بقیہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسلامیات کے استاد کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ دین اور مذہب کی تعلیم دے رہا ہے، اس لئے اوّلاً خود اس مضمون اور سبق کو اچّھی طرح سمجھتا ہو، قراٰن و حدیث میں اپنی ذاتی رائے ہرگز نہ دے، بزرگوں اور اَسلاف نے جو لکھا اور بیان کیا وہی طلبہ کو سکھائے۔ ایمانیات کی بنیادی باتیں، عقائد اور فرض عُلوم جو نصاب میں شامل ہوں لازماً اور اچّھے انداز میں سکھائے اور ان کے دل میں ایمان کو ایسے بٹھا دے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ادارے یا شعبے میں جائیں پکّے سچّے صحیح العقیدہ مسلمان رہیں۔
بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں
نوٹ اسباق کی تیّاری اور بہترین تدریس کے بارے میں مزید جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”کامیاب استاد کون؟“ کا مطالعہ کیجئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ناظم ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
[1] ۔۔۔”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“کے تمام شمارے دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net پر موجود ہیں۔
Comments