امام ابو بکر احمد بیھقی علیہ رحمۃ اللہ القوی

مُحدّثِینِ عِظام میں بلند پایَہ عِلمی مَقام رکھنےوالی ایک شخصیت شیخُ الاسلام  ، فقیہِ جلیل،حافظِ کبیر امام ابوبکراحمد  بن حسین بَیْہقی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی بھی ہے۔ ولادتآپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت شعبانُ  المعظّم 384 ھ کوخُراسان کے مشہورشہر بَیْھَق(نزدنیشاپور،ایران)میں ہوئی۔  بَیْھَق شہر کی نسبت سے  آپ کوبَیْھَقِی کہا جاتا ہے۔ حصولِ علم اور اساتذہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے علومِ دینیہ اور علمِ حدیث کےحصول کے لئے حجاز، مکّۂ مکرّمہ، عراق، جبال،نیشاپور، طابران، دامغان، اِسْفَرَایین اوردیگر کئی علاقوں کا سفر فرمایا اور 15 سال کی عُمْر سے ہی سَماعِ حدیث(استاذصاحب سے براہِ راست حدیثِ پاک کے الفاظ سننے) کی طرف مائل ہوئے۔ آپ کے اَساتِذہ میں صاحبِ مُسْتَدْرَک   امام ابوعبداللہ حاکم نیشا پوری شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کا نام سَرِ فہرست ہے۔ان کے علاوہ امام ابوبکرمحمدبن فُورَک شافعی اورمحدث ابوسعیدمحمدبن موسیٰ صَیْرَفی رحمہما اللہ تعالیٰ سےبھی اکتسابِِ فیض کیا۔  امام تاجُ الدّین سُبُکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے نقل فرمایا ہے کہ آپ کے اساتِذہ وشُیوخ کی تعداد 100سے زیادہ ہے۔ تلامذہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہکے مشہور شاگردوں میں شیخُ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری ہروی، سیّدُنا ابوعبد الله محمد بن فضل فَراوی شافعی،حافظ زاهر بن طاهر شَحَّامی،سیدناابو الْمَعالی محمد بن اسماعيل فارسیرحمھم اللہ تعالیٰ اوران کے علاوہ دیگرکئی حضرات شامل ہیں۔  علمی شان وشوکت اور تصانیف حافظ عبدُالغافربن اسماعیلرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے  ہیں کہ ”بیہقی“ فقیہ(مفتی)،حافظِ حدیث، قوّتِ حفظ میں یگانۂ روزگار(اپنے زمانے میں بے مثال) اورضَبْط و اِتّقان میں اپنے ہم عصروں سےمُمتاز تھے،امام حاکم کے بڑے شاگردوں میں سےہیں مگرکئی عُلوم ان سےزیادہ جانتے تھے، بچپن ہی میں احادیثِ مبارکہ کو لکھنا اوریاد کرنا شروع کر دیاتھا،آپ نے علمِ حدیث اورفِقْہ میں بےنظیر اور لا جواب کتابیں لکھیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے عقائد، احادیث، فقہ، مَناقب وغیرہ کئی اہم عُنوانات پر کُتُب تصنیف کی ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں سے دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ ، شُعَبُ الْاِیْمَان، مَعْرِفَۃُالسُّنَنِ وَالْآثَار، اَلسُّنَنُ الْکَبِیْر، اَلسُّنَنُ الصَّغِیْر ، کِتَابُ الْاَسْمَاءِ وَالصِّفَات، اورحَیَاۃُ الْاَنْبِیاء کا نام سرِفہرست ہے۔  زُہدوتقویٰ آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے زُہْدوتَقْویٰ کو بیان کرتے ہوئے امام ابوالحسن حافظ عبدُالغافر بن اسماعیلرحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہیں:امام بیہقی علیہ رحمۃ اللہ القویعلمائے سابِقین(پہلے کے علما) کی سیرتِ مبارَکہ  کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے، دنیاوی مال  میں سے بہت تھوڑے پر گزربسر کرنے والے اور زُہد و تقویٰ  سے آراستہ  تھے۔ آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی عبادت کا یہ حال تھا کہ زندگی کے آخری 30سال(ممنوع ایّام کے علاوہ)  ہردن روزے سے رہے۔ وصال مبارک  آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  نے اپنی عمر ِمبارَکہ کا آخری حصّہ نیشاپور میں گزارا،وہیں بیمار پڑگئےاور وقتِ رِحْلَت آپہنچا۔ 10 جمُادی الاُولیٰ 458ھ کو نیشاپور میں ہی داعیِ اَجل کو لبّیک کہا (یعنی آپ فوت ہوئے )  اور آپ کی تدفین   بیہق میں ہوئی۔

اللہ پاک  کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدرِّس مرکزی جامعۃ المدینہ ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی                                     

 


Share

امام ابو بکر احمد بیھقی علیہ رحمۃ اللہ القوی

مختصرتعارُف حضرت سیِّدُنا عُتْبَۃُ الْغُلام علیہ رحمۃ اللہ السَّلام کا پورا نام عُتبہ بن اَبان بَصَری ہے۔توبہ سے پہلے آپ فاسق و فاجراورشراب کے رَسیاتھے ،خوش قسمتی سے ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا حسن بَصَری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی مجلس میں حاضر ہوئے، ان کے بیان سے متأثّرہوکرتوبہ کی اورراہِ زُہدوتقویٰ کے مسافربن گئے۔آپ ساحلوں،صَحراؤں اور قبرِستانوں میں رہا کرتے،صرف جمعہ کے دن شہر ِبَصرہ آتے تھے، آپ صائمُ الدَّہْر(یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والے) بزرگ تھے۔

 فکرِ آخرت میں غمگین آپ فکرِ آخِرت میں اکثر غمگین رہتے تھے یہاں تک کہ  آپ کو حضرت حسن بَصَری  علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی مانِند قرار دیا جاتا تھا۔

(سیر اعلام النبلاء،ج7،ص51،52،تاریخ الاسلام للذہبی،ج 10،ص347)

آمدنی(Income) کا ذریعہ حضرت سیِّدُنا عُتبَۃُ الْغُلام علیہ رحمۃ اللہ السَّلام درختوں کے پتّوں کی ٹوکری (Basket) بناتے تھے،چنانچہ حضرت ابوعُمر بصری علیہ رحمۃ اللہ القَویبیان کرتے  ہیں کہ حضرت عُتْبۃُ الْغلام علیہ رحمۃ اللہ السَّلام کا سرمایہ ایک فَلْس (درہم کے چھٹے حصّے کے برابر سکّہ) تھا۔ آپ اس سے  کھجور و ناریل وغیرہ کے پتّے خریدتے اور ان سے ٹوکری بنا کر اُسے تین فلس کی بیچ دیتے پھر ایک فلس صَدَقہ کردیتے، ایک فلس سرمائے (Capital) کے طور پر رکھ لیتے اور ایک فلس سے اِفطاری کا سامان خرید لیتے۔(حلیۃ الاولیاء،ج 6،ص248)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ وَ جَلَّ کے نیک بندے دین پر مدد حاصل کرنے کے لئے دنیا سے حسبِ ضرورت لیتے اور بچا ہوا مال راہِ خدا میں خرچ کردیتے تھے۔بزرگانِ دین  رحمھم اللہ المُبِین راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لئے مال سے مَحبت رکھتے تھےجبکہ ہمارا معاملہ اس کے برعکس (Opposite) ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمیں مال کی کتنی فکر رہتی ہے اور کیوں رہتی ہے؟ اللہ پاک ہمیں مال کی حِرْص سے بچاکر قَناعت کی دولت سےمالا مال فرمائے۔

 بیکار رہنے پر اظہارِ ناپسندیدگی حضرت سیِّدُنا عُتبۃُ الغلام علیہ رحمۃ اللہ السَّلام فرماتے ہیں:مجھے وہ شخص  پسند نہیں جو کوئی پیشہ اختیار نہ کرے۔(سیر اعلام النبلاء،ج7،ص52)میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس فرمان میں ان لوگوں کے لئے درس ہے جو بے کار پڑے رہتے ہیں اور کوئی ملازَمت یا پیشہ  اختیار نہیں کرتے حالانکہ رزقِ حلال کے لئے کوشش کرنے والا اللہ پاک کو محبوب ہے، حدیث شریف میں ہے: حلال کی طلب کرنا جہاد ہے اور اللہ  پاک  پیشہ اختیارکرنے والے بندے کو پسند فرماتا ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا،ج7،ص449)

اللہ پاک ہمیں اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے رزقِ حلال کمانے کی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share