چیز بیچنے پر اجارہ کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ زید کو قسطوں کی دکان پر نوکری مل رہی ہے، تنخواہ کی تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ مارکیٹنگ کرکے مہینہ میں 4لاکھ کی سیل کروائے گا تو اس کو 25000روپے تنخواہ ملے گی اور اگر اس سے کم ہوئی تو ایک لاکھ سیل پر 1ہزارتنخواہ ہوگی، اور سیل کے کم زیادہ ہونے کی صورت میں اسی تناسب سے تنخواہ ملے گی۔ کیا یہ نوکری جائزہے یا نہیں؟
نوٹ:وقت کا اجارہ نہیں ہوگا، کام پر ہوگا، وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوگی نیز قسط لیٹ ہونے پر مالی جرمانہ کی شرط بھی ہوتی ہے۔ سائل:محمد محسن(مرکزالاولیاء،لاہور)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:سوال میں مذکورہ طریقہ کے مطابق نوکری کرنا جائز نہیں کہ اولاً تو یہاں چیز بیچنے پر اجارہ کیا گیا ہے یعنی اگر ملازم ایک لاکھ کی اشیاء فروخت کرے گا تو اسے ایک ہزار روپے ملیں گے اور اگر چار لاکھ کی فروخت کرے گا تو اسے پچیس ہزار روپے ملیں گے (اسی طرح کم زیادہ بیچنے کی صورتیں ہیں) اور چیز بیچنے پر اجارہ کرنا جائز نہیں کہ یہ ایسا کام ہے جو اجیر کی قدرت میں نہیں ہے۔ اور ثانیاً قسط میں تاخیر کی وجہ سے جو مالی جرمانہ کی شرط لگائی گئی ہے یہ بھی جائز نہیں کیونکہ مالی جرمانہ منسوخ ہوچکا ہے اور منسوخ پر عمل کرنا حرام ہے ۔
درمختار اورتبیین الحقائق وغیرہ میں ہے(والنظم للتبیین) ”لو استؤجر بأجرۃ معلومۃ علی ان یشتری او یبیع شیأ معلوما لا تجوز الإجارۃ؛ لانہ استؤجر علی عمل لا یقدر علی اقامتہ بنفسہ فإن الشراء والبیع لا یتم الا بمساعدۃ غیرہ وھو البائع والمشتری فلا یقدر علی تسلیمہ‘‘ ترجمہ: اگر کسی کو ایک معین اجرت کے بدلے میں شے بیچنے یا خریدنے پر اجیر رکھا تو یہ اجارہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس کو ایسے کام پر اجیر رکھا گیا ہے جس کو کرنے پر وہ قادر نہیں، اس لئے کہ خریدنا اور بیچنا کسی دوسرے کی کوشش کے بغیر تام نہیں ہوتا اور دوسرا شخص بائع اور مشتری ہے لہٰذا اجیر اس منفعت کو سپرد کرنے پر قادر نہیں۔(تبیین الحقائق،ج 5،ص67)
ردالمحتار میں بحرالرائق کے حوالے سے ہے فی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ‘‘ ترجمہ:شرح الآثار میں ہے کہ تعزیر بالمال ابتدائے اسلام میں تھی پھر اس کو منسوخ کردیا گیا۔(ردالمحتار،ج4،ص61)حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق میں ہےالعمل بالمنسوخ حرام‘‘ترجمہ:منسوخ پر عمل کرنا حرام ہے۔ (حاشیہ شلبی مع تبیین الحقائق،ج4،ص189)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مجہول نفع پر خرید و فروخت کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں کپڑا سیل کرتا ہوں۔طریقہ یہ ہے کہ میرے ماموں اپنے پیسوں سے دوسرے ملک سے کپڑا منگواتے ہیں، میں وہ کپڑا ان سے اُدھار پر خریدلیتا ہوں اور طے یہ ہوتا ہے کہ اس کی وہ مالیت جس پر ماموں نے خریدا ہے اور مزید بیچنے کے بعد جو نفع ہوگا اس میں سے آدھا ماموں کو دوں گا، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ اگر اس میں کوئی خرابی ہے تو اس کا حل بھی بتادیں۔ سائل:محمد ارشد عطاری
(مرکزالاولیاء،لاہور)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:آپ کا اپنے ماموں سے اس طرح کپڑا خریدنا ’’ناجائز و گناہ ‘‘ہے اور یہ بیع فاسد ہے جس کو ختم کرنا دونوں پر لازم ہے کیونکہ اس میں کپڑے کی قیمت مجہول ہے کہ آپ نے یہاں دو چیزوں کو بطورِ قیمت مقرر کیا ہے (1)آپ کے ماموں کی قیمتِ خرید(2)آپ کو ہونے والے نفع میں سے آدھا حصہ۔اور آپ کو نفع کتنا ہوگا یہ مجہول ہے لہٰذا اس وجہ سے یہ بیع فاسد ہے۔بدائع الصنائع میں بیع کی صحت کی شرائط کے بیان میں ہے ”ان یکون المبیع معلوما وثمنہ معلوما“ ترجمہ: بیع کےصحیح ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ مبیع (یعنی جس چیز کو بیچا جارہا ہے)اور اس کی قیمت معلوم ہو۔(بدائع الصنائع،ج5،ص156)
محیط برہانی میں ہے”جہالۃ المبیع أو الثمن مانعۃ جواز البیع“ترجمہ:مبیع یا ثمن کی جہالت بیع کے جواز سے مانع ہے۔(محیط برہانی،ج6،ص363)
امامِ اہلِ سنّت سیّدی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:وکل شرط فاسد فھو یفسد البیع وکل بیع فاسد حرام واجب الفسخ علی کل من العاقدین فان لم یفسخا اثما جمیعا وفسخ القاضی بالجبر“ جو شرط فاسد ہو وہ بیع کو فاسد کردیتی ہے اور ہر فاسد بیع حرام ہے جس کا فسخ کرنا بائع اور مشتری میں سے ہر ایک پر واجب ہے اگر وہ فسخ نہ کریں تو دونوں گنہگار ہوں گے اور قاضی جبراً اس بیع کو فسخ کرائے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج17،ص160)
اس کا حل یہ ہے کہ آپ ایک مدت طے کرکے مقررہ قیمت پر اپنے ماموں سے وہ کپڑا خریدیں مثلاً اگر ان کو وہ کپڑا 5ہزار میں پڑا ہے تو آپ ان سے ایک ماہ کے ادھار پر 5ہزار 5سو کا خرید لیں یا 6ہزار کا خرید لیں، قیمت جو بھی طے ہو وہ معین ہواور ساتھ ہی پیسے دینے کی تاریخ بھی طے کرلیں تو آپ کا خریدنا ’’جائز‘‘ ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ایک روپے کی چیز دس روپے میں بیچنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ کیا ایک روپے کی چیز دس روپے میں بیچنا جائز ہے؟ سائل:محمدمحسن عطّاری(مرکز الاولیاء،لاہور)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: جب کوئی مانعِ شرعی (جیسا کہ جھوٹ اور دھوکا وغیرہ) نہ ہو تو ایک روپے کی چیز باہم رضا مندی سے دس روپے میں بیچنا جائز ہے کیونکہ شریعتِ مطہرہ نے نفع کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن سے سوال ہوا کہ’’چار پیسے کی چیز کا دُگنی یا تین گنی قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے؟‘‘ تو جواباً ارشاد فرمایا: ’’(ماقبل اور یہ)دونوں باتیں جائز ہیں جبکہ جھوٹ نہ بولے فریب نہ کرے مثلاً کہا خرچ وغیرہ ملا کر مجھے سوا چار میں پڑی ہے اور پڑی تھی پونے چار کو یا خرید وغیرہ ٹھیک بتائے مگر مال بدل دیا،یہ دھوکا ہے یہ صورتیں حرام ہیں ورنہ چیزوں کے مول لگانے میں کمی بیشی حرج نہیں رکھتی۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،ج17،ص139)
لیکن مناسب یہ ہے کہ لوگ جو نفع عمومی طور پر لیتے ہیں وہی لیاجائےکیونکہ جو زیادہ نفع لیتاہے لوگ اس سے کم خریداری کرتے ہیں اور باتیں بھی بناتے ہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دارالافتاءاہل سنت ،مرکزالاولیاءلاہور
Comments