قریبی رشتہ داروں کا میّت کے گھر رُکنا

(1)قریبی رشتہ داروں کا میّت کے گھر رُکنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ لوگوں کے ہاں میّت ہونے پر سات دن تک یہ ہوتا ہے کہ دُور کے رشتہ دار چلے جاتے ہیں،مگرقریبی رشتہ دار اور اہلِ خانہ گھر بیٹھے رہتے ہیں، کام کاج وغیرہ کے لئے نہیں جاتے، جو لوگ تعزیت کرنے آتے ہیں ان سے ملتے ہیں اور میّت کے لئے دعا کرتے ہیں،اس دوران بعض اوقات رونے دھونے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ اس کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بہتر تو یہ ہے کہ تعزیت وصول کرنے کے لئے کسی دن بھی نہ بیٹھا جائے اوراگر بیٹھنا ہی ہوتو اہلِ خانہ کو تین دن تک تعزیت وصول کرنے کے لئے گھر میں بیٹھنے کی بِلاکراہت رخصت و اجازت ہے جبکہ کوئی مَمنوع کام نہ کریں (مثلاً عمدہ عمدہ بچھونے بچھانا، میّت کی تعریف میں حد سے غلو، تعزیت کے وقت وہ باتیں جو غم و اَلم کو زیادہ کریں اور میّت کی بھولی ہوئی باتیں یاد دلائیں) اور تین دن کے بعد اس غرض سے بیٹھنا مکروہِ تَنْزِیہی ہےاور میت کے لئے دُعا وایصالِ ثواب کرنا تو شرعی طور پر اچھا عمل ہے،یہ تو زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

محمد ہاشم خان العطاری المدنی

(2)سُتُونوں کے درمیان صف بنانا

سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ ہماری مسجد کی ایک صف کے درمیان دو سُتون آتے ہیں جس کی وجہ سے قَطعِِ صف لازم آتا ہے۔ ایسی صف میں نَمازیوں کا صف بنانا کیسا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بِلا ضرورت سُتونوں کے درمیان صف بنانا مکروہ و ناجائز ہے کہ اس سے قَطعِِ صف لازم آتا ہے جو کہ نا جائز ہے۔ ہاں اگر کوئی عُذر ہو کہ نَمازیوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ تنگ ہو یا باہَر بارش ہو تو سُتونوں کے درمیان کھڑے ہو سکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

محمد ہاشم خان العطاری المدنی

(3)داڑھ بھروانے کی صورت میں وُضو و غسل کا حکم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی شخص نے اگر اپنی داڑھ بھروائی ہو تو کیا اس کا وُضو و غسل ہو جائے گا؟ جبکہ داڑھ بھروائی ہو تو اس کو نکالا نہیں جاسکتا۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

داڑھ بھروانا شرعی طور پر جائز ہے اور اگر کسی نے داڑھ  بھروائی ہو تو اس کا وُضو و غسل بِلاکراہت ہو جائے گا اور اس کے نیچے پانی نہ پہنچانے کو وُضو میں ترکِ سنّت اور غسل میں ترکِ فرض قرار نہ دیا جائے گا کیونکہ ایسی حالت میں اس کے نیچے پانی بہانا ناممکن ہوتا ہے اور جس جگہ تک پانی پہنچانا مُتَعَذِّر ہو یا مَشَقَّت و حرج کا باعث ہو وہاں تک پانی پہنچانے کا شریعت نے مُکَلَّف نہیں کیا۔

اس کی نَظِیر ہلتا ہوا دانت ہے کہ اگر تار سے باندھا ہو یا کسی مسالے وغیرہ سے جمایا ہو یا دانتوں میں چونا یا مِسِّی کی ریخیں جم گئی ہوں تو شرعی طور پر اس کے نیچے پانی بہانا ضَروری نہیں یونہی مصنوعی دانت لگوانے کی صورت میں اگر دانت کو اُتارنا حرج و مَشَقَّت کا باعث ہو تو اُتار کر نیچے پانی بہانے کی حاجت نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب                                                                                                                                                                مُصَدِّق

محمد ساجد عطاری                 محمدہاشم خان العطاری المدنی

(4)کسی رَکْعت کاسجدہ رہ گیاتو؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدَمی تنہا نَماز ادا کررہا ہے، اگر دورانِ نماز کسی رَکْعت میں بھول کراس نے صرف ایک سجدہ کیا اور اگلی رکعت میں اسے یاد آیا کہ میں نے ایک ہی سجدہ کیا تھا تو وہ کیا کرے اور اگر نَماز کا سلام پھیرنے کے بعد یاد آیا تو کیا کرے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کسی رکعت کا سجدہ رہ گیا تو نَماز کے اندر جب یاد آئے کرلے اور آخِر میں سجدہ سَہو کرے، اگر رُکوع میں یاد آیا کہ نماز کا کوئی سجدہ رہ گیا ہے اور وہیں سے سجدہ کو چلا گیا یا سجدہ میں یاد آیا اور سَر اُٹھاکر وہ سجدہ کرلیا تو بہتر یہ ہے کہ اس رُکوع و سُجُود کا اِعَادہ  کرے اور سجدہ سَہو کرے اور اگر اس وقت نہ کیا بلکہ آخرِ نماز میں کیا تو اس رُکوع و سُجُود کا اِعَادہ نہیں سجدہ سَہو کرنا ہوگا۔

اور اگرسَلام کے بعد یاد آیا تو اگر کوئی کام مُنافیِ نماز نہیں کیا یعنی کوئی گفتگو نہیں کی، قصداً وُضو نہ توڑا وغیرہ تو یاد آتے ہی نماز کا رہ جانے والا سجدہ کرے پھرسَر اٹھاکر تَشَہد پڑھے، اس کے بعد سجدہ سَہو کرے اور تَشَہد مکمل پڑھ کر سلام پھیردے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب                                                                                                             مُصَدِّق

محمدعرفان مدنی                  محمدہاشم خان العطاری المدنی

 


Share