رحمت ِعالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ایک دن دورانِ خطبہ مسجدِ نَبَوی شریف میں کھڑے چند لوگوں سے ارشاد فرمایا: بیٹھ جاؤ، اس وقت ایک جانثار صحابی مسجد کی جانب بڑھ رہے تھے، جونْہی رسول ِ مُحْتَشَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے کلمات نے کانوں میں رس گھولا تو فوراً رُک گئے (جانتے تھے کہ یہ حکم مسجد میں موجود لوگوں کے لئے ہے اس کے باوجود) مسجد سے باہر اسی جگہ بیٹھ گئے۔ بعد میں جانِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم تک جب یہ بات پہنچی تو خوش ہوکر اپنے اس جانثار پیارے صحابی سے فرمایا: اللہ تعالیٰ! تمہارے دل میں اطاعت ِالٰہی اور اطاعت ِرسول کا جذبہ اور زیادہ کرے۔ ( دلائل النبوۃ للبیہقی،ج6،ص257) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دعائے نَبَوی سے حصّہ پانے والے یہ صحابی بارگاہِ رسالت کے مشہور شاعر حضرت سیّدنا عبد اللہ بن رَوَاحہ انصاری خَزْرَجی رضیَ اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ بیعتِ اسلام اعلانِ نبوت کے تیرھویں سال حج کے پُربہار موقع پر منیٰ کی گھاٹی میں آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ نے تقریباً 70 خوش نصیبوں کے ساتھ حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے دست ِحق پر بیعت کی سعادت پائی۔ (طبقات ابنِ سعد،ج3،ص398) آپ تجربہ کار شاعر تھے، قُبولِ اسلام کے بعد اپنی شاعری کا رُخ مدحتِ رسول اور کفّار کی مَذَمّت کی جانب موڑ دیا تھا۔ لب سے جو نکلی وہ بات ہوکر رہی چند اشعار کا تَرجَمہ مُلاحَظہ کیجئے: ہمارے درمیان اللہ کے رسول ہیں، صبح کے نمودار ہوتے ہی وہ تلاوت ِقراٰن سے بہرہ مند ہوتے ہیں، ہم گمراہ تھے توانہوں نے ہمیں راہِ ہدایت پر چلنا سکھایا، ہمارے دِلوں کو یقین ہے کہ جو بات ان کے لب پر آجاتی ہے وہ ضرور ہوکر رہتی ہے۔ (بخاری،ج 1،ص391، حدیث: 1155) ذو القعدہ سن 7 ہجری میں قضائے عمرہ کے موقع پر مکّہ کی فضاؤں میں داخل ہوئے تو سیّد ِعالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی سُواری کی مُہار تھامے ہوئے اشعار پڑھ رہے تھے، حضرت سیّدنا عمر فاروق رضیَ اللہ تعالٰی عنہ نے منع کیا تو پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا: اے عمر ! انہیں کہنے دو، یہ اشعار کفّار پر تلوار کے وار سے زیادہ سخت ہیں۔ (معجم کبیر،ج 13،ص173) کیا ابھی شعر کہہ سکتے ہو؟ ایک مرتبہ فخرِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے آپ سے اِسْتِفْسا ر فرمایا: تم اشعار کیسے کہہ لیتے ہو؟ عرض کی: کسی چیز کو دیکھتا ہوں پھر اشعار کہہ ڈالتا ہوں۔ اسی طرح سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ایک مرتبہ پوچھا: شعر کیا ہوتا ہے؟ آپ نے عرض کی: ایک ایسی چیز جو انسان کے دل میں کھٹکتی ہے، پھر انسان اسے اپنی زبان پر شعر کی صورت میں ظاہر کردیتا ہے، فرمایا: کیا ابھی شعر کہہ سکتے ہو؟ آپ نے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے چہرے کی جانب نظر کی اور فِی الْبَدیہہ نعتِ مصطفےٰ پڑھنے لگے۔ (تاریخ ابنِ عساکر، 28،93،94) مُشْک سے بہتر ایک بار نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم درازگوش (Donkey)پر سُوار ہوکر اَنصار صحابہ کی مجلس میں کچھ دیر ٹھہرے، وہاں درازگوش نے پیشاب کیا تو منافق اِبنِ اُبَیْ نے ناک بند کرلی۔ اس پر آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میرے آقا کے درازگوش کا پیشاب تیرے مُشْک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے۔ (تفسیر نسفی ، پ 26 ، الحجرات، تحت الآیۃ:9، ص 1153) طعنوں کی پرواہ نہ کی ایک روز آپ کی سیاہ فام باندی نے کوئی غَلَطی کی تو آپ نے اسے تھپڑ ماردیا بعد میں (آپ کو اپنے اس فعل پر ندامت ہوئی اوربدلے میں) اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلیا، لوگوں نے سیاہ فام سے نکاح کرنے پر طعنے دئیے (لیکن آپ نے اس کی پروا نہ کی)۔ (درِمنثور ،پ 2، البقرہ ،تحت الآیہ: 221،ج 1،ص615 ملخصاً) رشوت حرام ہے جب قَلعۂ خیبر کی کَھجوریں پک جاتیں اور غَلّہ تیّار ہوجاتا تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کو خیبر بھیج دیتے۔ آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کَھجور اور اناج کے ڈھیر کو دو برابر حصّوں میں تقسیم کردیتے، پھر اختیار دیتے ہوئے فرماتے: اے یہودیو! جو حصہ تم کو پسند ہو، وہ لے لو۔ ایک مرتبہ یہودیوں نے اپنی عورتوں کے زیورات جمع کئے اور آپ کو دیتے ہوئے کہا: ہمارے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں اور تقسیم میں ہاتھ ہلکا رکھیں، یہ سُن کر آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ جلال میں آگئے اور فرمایا: اے یہودیو! جو تم دے رہے ہو وہ رشوت ہے اور رشوت مالِ حرام ہے جس کو ہم مسلمان نہیں کھاتے۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج 28،ص111 ملخصاً) خوفِ خدا ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ لیٹے ہوئے تھے کہ اچانک رونے لگے، یہ دیکھ کر اہلیہ بھی رونے لگیں۔ آپ نے پوچھا: کیوں روتی ہو؟ جواب دیا: آپ کو روتا دیکھ کر مجھے بھی رونا آگیا۔ پھر آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے رونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: قراٰنِ مجید میں ہے کہ( وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ- ) (پ16، مریم: 71) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس فرمان کے یاد آتے ہی مجھے رونا آگیا کہ جہنم پر سے گزرنا یقینی ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ عافیت سے گزروں گا یا نہیں! (مستدرک ،ج 5،ص810) سخت گرمی میں روزہ ایک مرتبہ سیّدِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی ہمراہی میں محو ِ سفر تھے، گرمی کی شدّت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ اپنا ہاتھ اپنے سَر پر رکھ لیتے تھے۔ اس وقت صرف دو حضرات روزہ دار تھے ایک خود رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم، دوسرے حضرت ابنِ رواحہ(رضیَ اللہ تعالٰی عنہ)۔ (مسلم، ص438، حدیث:2631مختصراً) ہر حاجت پوری ہوگی ایک بار نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے آپ کو سفر پر روانہ فرمایا تو آپ عرض گزار ہوئے: کچھ نصیحت فرمائیے جسے میں یاد کرلوں، فرمایا: تم کل ایسے شہر میں جانے والے ہو جہاں سجدہ گزار کم ہیں لہٰذا سجدوں کی کثرت کرنا، آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی: اور ارشاد فرمائیے، فرمایا: اللہ پاک کا ذکر کرو کہ یہ تمہاری ہر حاجت کے پورا ہونے میں مددگار ثابت ہوگا۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج 28،ص120) نماز سے مَحَبّت آپ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ گھر سے نکلنے کا ارادہ کرتے تو دو رکعت پڑھتے، گھر میں داخل ہوتے تو بھی دو رکعت پڑھتے اور اس عمل کو کبھی نہیں چھوڑا۔ (زہد لِابن المبارک، ص454) غم گُساری حضرت سیّدنا زید بن اَرْقم رضیَ اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیّدنا عبد اللہ بن رَواحہ کی پرورش میں رہا ہوں، میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی شخص ان سےبہتر یتیم کی پرورش کرتا ہو۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج28،ص118) راہِ حق کا مسافر راہِ خدا میں لڑنے کاجذبہ ایسا تھا کہ جہاد و غزوہ کے لئے نکلنے والے پہلے شخص ہوتے اور واپسی کے وقت سب سے آخر میں پہنچتے تھے۔ (اسد الغابۃ،ج3،ص238) شہادت سن 8ہجری جُمادَی الاُولیٰ میں جنگِ موتہ کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ رُومی افواج کے مقابلے میں 3000 مسلمانوں کی مختصر سی فوج نے اپنی جان پر کھیل کر ایسی معرکہ آرائی کی کہ تاریخ اس کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے، جنگ سے پہلے آپ کے جذبات یہ تھے: اے لوگو! تم شہید ہونے کے لئے نکلے ہو اور اب اسے ناپسند کررہے ہو، ہم دشمن کی کثرت اور طاقت دیکھ کر جنگ نہیں کرتے، ہم اُس دین کی خاطر لڑتے ہیں جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت عطا فرمائی،اب دو اچّھی باتوں میں سے صرف ایک ہوگی فتح یا شہادت!جنگ شروع ہوئی تو کئی صحابۂ کرام مرتبۂ شہادت پر فائز ہوگئے حضرت سیّدنا زید بن حارثہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت سیّدنا جعفر رضیَ اللہ تعالٰی عنہ نے پرچمِ اسلام تھام لیا مگر جلد ہی جسم پر موجود لباس خون میں ڈوب گیا اس وقت حضرت سیّدنا عبد اللہ بن رَوَاحہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہ لشکر میں دوسری جانب تھے ۔ تین دن سے بھوکے تھے، چچّا زاد بھائی نے گوشت سے بھری ہوئی ہڈّی پیش کی تو ایک لُقْمہ ہی کھایا تھا کہ حضرت سیّدنا جعفر رضیَ اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کی خبر آگئی، بےتاب ہوکر ہڈّی چھوڑ دی اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے اے عبد اللہ ! ابھی تک تیرے پاس دنیاوی شے ہے، فوراً پرچم ِاسلام ہاتھ میں لیا اور لشکر کی کمان سنبھال کر بےجگری سے دشمنوں پر ٹوٹ پڑے، لڑتے لڑتے انگلی کٹ گئی تو فرمایا: ابھی انگلی کٹی ہے اور یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے، اے نفس! آگے بڑھ ورنہ موت کا فیصلہ تجھے قتل کرڈالے گا اور تجھے ضرور موت دی جائے گی۔ پھر انتہائی دلیری اور جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے بالآخر زخموں سے نڈھال ہوکر زمین پر گر پڑے اور شربت ِشہادت سے سیراب ہوگئے۔(سیرت ابن ہشام،ص456تا 459۔تاریخ ابن عساکر،ج28،ص126)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرِّس مرکزی جامعۃ المدینہ ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments