غیب کی تعریف غیب کے (لفظی) معنی ہیں: غائب یعنی چُھپی ہوئی چیز۔ غیب وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اور ہم اپنے حَوّاسِ خَمسہ یعنی دیکھنے، سُننے، سونگھنے، چکھنے اور چُھونے سے نہ جان سکیں اور غور و فکر سے عَقل اُسے معلوم نہ کرسکے۔(ملخص از تفسیرِ بیضاوی،ج 1،ص114 وغیرہ) جیسے جنَّت اور دوزخ وغیرہ ہمارے لئے اِس وقت غَیب ہیں کیونکہ اِنہیں ہم حوّاس (یعنی آنکھ، ناک، کان وغیرہ) سے معلوم نہیں کرسکتے۔ عقیدہ اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو روزِ اوّل سے روزِ آخِر تک کا علم عطا فرمایا ہے۔ لوحِ محفوظ میں درج تمام عُلُوم نیز اپنی ذات و صفات کی معرفت سے متعلّق بہت اور بےشُمار عُلوم عطا فرمائے۔ عُلُومِ خمسہ پر مطلع فرمایا جس میں خاص وقتِ قِیامت کا علم بھی شامل ہے۔ ساری مخلوقات کے احوال اور تمام مَاکَانَ (جو ہوچکا) اور مَایَکُوْنُ (جو ہوگا) کا علم عطا فرمایا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم ’’عطائی (اللہ کریم کا عطا کیا ہوا) ‘‘ہونے کی وجہ سے’’حادِث‘‘ ہے اور اللہ پاک کا علم’’ ذاتی و قدیم‘‘۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم ہرگز ہرگز اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں۔ (مقالاتِ کاظمی،ج 2،ص111ملخصاً) علمِ مصطفےٰ کی تکمیل یاد رہے! ہمارے پیارے نبیِّ کریمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارَک علم میں نزولِ قراٰن کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا تھا آخِرکار قراٰنِ پاک کی تکمیل کے ساتھ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم بھی مکمل ہوگیا جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: فقیر نے قرآنِ عظیم کی آیاتِ قطعیہ سے ثابت کیا کہ قرآنِ عظیم نے 23 برس میں بتدریج نزولِ اِجلال فرما کر اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جَمِیْع مَاکَانَ وَمَا یَکُوْن یعنی روزِ اوّل سے روزِ آخِر تک کی ہر شَے، ہر بات کا علم عطا فرمایا۔(فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص512) چند ضروری وضاحتیں ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علمِ غیب کے متعلق چند ضَروری باتیں ذِہْن نشین فرما لیجئے، ان شاء اللہ عزوجل نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علمِ غیب سے متعلق شیطانی وسوسوں کا علاج ہوجائے گا۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: (1)بےشک غیرِ خدا کے لئے ایک ذَرّہ کا علم’’ ذاتی‘‘ نہیں اتنی بات’’ضَروریاتِ دین‘‘سے ہے اور اس کامُنْکِر (یعنی انکار کرنے والا)کافر ہے۔ (یعنی جو کوئی اللہ پاک کے بتائے بغیر غیرِ خدا کے لئے ایک ذرّے کا بھی علم مانے وہ مسلمان نہیں) (2)بے شک غیرِ خدا کا عِلم اللہ تعالیٰ کی معلومات کا اِحاطہ نہیں کرسکتا، برابر ہونا تو دُور کی بات۔ تمام اَوّلِین و آخِرین، اَنبیاء و مُرسَلین، ملائکہ و مُقرّبین سب کے عُلوم مل کر عُلومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصّے کو ہے کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصّہ دونوں ’’مُتَناہی (Limited) ‘‘ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے) اور ”متناہی“ کو ’’متناہی ‘‘سے نسبت ضَرور ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کے عُلوم ’’غیرمُتَناہی دَر غیرمتناہی دَر غیرمتناہی (Unlimited) ‘‘ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہے ہی نہیں) اور مخلوق کے عُلوم اگرچہ عرش و فرش، مشرق و مغرب، روزِ اوّل تا روزِ آخِر جملہ کائنات کو محیط ہوجائیں پھر بھی ’’مُتَناہی (Limited) ‘‘ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں (boundaries) ہیں، روزِ اوّل اور روزِ آخِر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب’’ مُتَناہی (Limited) ‘‘ہے (3)بِالفعل غیرِمُتَناہی کا علمِ تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا تو جُملہ عُلومِ خَلق کو علمِ الٰہی سے اصلاً نسبت ہونی محالِ قطعی ہے نہ کہ مَعَاذَ اللہ تَوَہُّمِ مساوات۔ (یعنی جس بارِی تعالیٰ کے علم کی حقیقی طور پر کوئی حَد اور کِنارہ نہیں ہے اس کا سارے کا سارا علم مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا، لہٰذا جب ساری مخلوق کے سارے عُلوم مل کر بھی اللہ پاک کے علم سے کسی طرح بھی نسبت نہیں رکھتے تو معاذاللہ انہیں اللہ پاک کے علم کے برابر ہونے کا وہم و گمان بھی کیسے ہوسکتا ہے!) (4)اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے سے انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو کثیر و وافِر غیبوں کا عِلم ہے یہ بھی ضَروریاتِ دین سے ہے جو اِس کا منکر ہو کافر ہے کہ سِرے سے نَبُوّت ہی کا منکر ہے (5)اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کا حصّہ تمام انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور تمام جہان سے اَتَمّ (کامل ترین) اور اعظم (سب سے بڑا) ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیبِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شُمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص450،451 ملخصاً) ایک ایمان افروز روایت حضرت سیّدنا انس بِن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: سورج ڈھلنے پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لائے، نمازِ ظہر ادا فرمائی، پھر منبر پر کھڑے ہوکر قِیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں بڑے بڑے اُمور ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا: جو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو تو پوچھ لے اور تم مجھ سے جس کسی شے کے بارے میں سوال کرو گے میں تمہیں اسی جگہ بتا دوں گا۔ تو لوگ زار و قِطار رونے لگے۔ بہت زیادہ روئے اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عبدُاللہ بن حُذافَہ سَہْمی رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے: میرا باپ کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہارا باپ حُذافہ ہے۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گُھٹنوں کے بل کھڑے ہوکر عرض کی: ہم اللہ پاک کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموش ہوگئے، پھر فرمایا: ابھی مجھ پر جنّت اور جہنّم اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں، میں نے ایسی اچّھی اور بُری چیز نہیں دیکھی۔ (بخاری،ج1،ص200،حدیث: 540)
رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علمِ غیب کا قراٰنِ پاک اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان اگلے ماہ کے شمارے میں ملاحظہ کیجئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… رکن مجلس المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی
Comments