Book Name:Akhirat Ki Fikar Karni Hai Zaror
یعنی جن میں یہ 5 اَوْصاف ہیں ، وہی اپنے رَبّ کریم کی طرف سے ہِدایَت پر ہیں اور یہی اَصْل میں کامیاب ہیں۔یہ 5 اَوْصاف کون کون سے ہیں؟یہ جاننے کے لئے تفسیرِصراط ُالجنان سے سورۂ بقرہ کے پہلے رکوع کی تفسیر پڑھ لیجئے! ان میں ایک وَصْف یہ ہے ، اللہ پاک نے فرمایا :
وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) ( پارہ : 1 ، سورۂ بقرہ : 4 )
ترجَمہ کنز الایمان : اور آخرت پر یقین رکھیں ۔
معلوم ہوا؛ جو تقویٰ والے ہیں وہ آخرت پر اِیْقَان رکھتے ہیں۔ اِیْقَان کا معنی ہے : پختہ تَرِین یقین ، جس میں ذَرَّہ برابر بھی شک و شُبہ نہ ہو۔ جب کسی چیز کے متعلق اِتنا پختہ یقین ہو جائے تو وہ دِل اور دِماغ پر چھا جاتی ہے ، انسان اس کے خِلاف کچھ سوچتا ہی نہیں ہے۔
حضرت حَسَن بَصَری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ اور فِکْرِ آخرت
اپنے وَقْت کے بہت بڑے امام ، وَلِیِ کامِل حضرت اِمام حَسَن بَصَری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ اَہْلِ تقویٰ میں سے ہیں۔ علّامہ اِبْنِ جوزی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ لکھتے ہیں : * امام حَسَن بَصَری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ جب تشریف لاتے تو یُوں لگتا جیسے کسی قریبی دوست کی تدفین سے واپس آئے ہیں * آپ ایسے رہتے جیسے آگ آپ کے سَر پر لٹک رہی ہے * ایسے بیٹھتے جیسے کوئی قیدی ہے اور ابھی اس کی گردن مار دی جائے گی * صبح اس حال میں کرتے کہ جیسے ابھی قِیامت کی ہولناکیوں سے گزر کر آئے ہیں * ایک مرتبہ کسی نے آپ سے حال پوچھا تو فرمایا : بیچ سمندر میں جس کی کشتی ٹوٹ جائے ، وہ بھی مجھ سے بہتر حالت میں ہو گا۔ پوچھا : ایسا کیوں؟ فرمایا : میں گنہگار بندہ ہوں اور جو کچھ نیکیاں کر پایا ہوں ، وہ قبول ہوئیں ، یا میرے منہ پر مار دی جائیں گی ،