Book Name:Akhirat Ki Fikar Karni Hai Zaror
یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں ، مختلف آفات ہیں جو انسان کو چمٹی ہوئی ہیں ، انسان ایک سے بچ جاتا ہے تو دوسری اُسے ڈس لیتی ہے اور وہ ( یعنی ڈبے سے باہَر والی لکیر ) انسان کی اُمِّید ہے۔ ( [1] )
پیارے اسلامی بھائیو! غور فرمائیے!اِس عبرتناک حدیثِ پاک نے ہمارے حالات کی پُوری پُوری عکّاسی کر دی ہے۔ واقعی موت نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے * ہم اپنے اردگرد موت کے اَسْباب پر غور کریں * بجلی موت کا ذریعہ ہے * ہماری گاڑی موت کا ذریعہ ہے * بیماری موت کا ذریعہ ہے * ہمارا کھانا ہمارے اندر اُتر کر زہر بھی بن سکتا ہے ، لہٰذا یہ بھی موت کا ذریعہ ہے ، یُوں غور کریں ، موت نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہم مختلف قسم کے مسائِل میں پھنسے ہوئے ہیں * کبھی بیماری آتی ہے * کبھی تنگدستی آتی ہے * کبھی بچوں کی فِکْر * کبھی اپنی فِکْر * کبھی کھانے کی فِکْر * کبھی کمانے کی فِکْر * ہم ہزار قسم کی فِکْروں اور مسائِل و آفات میں گِھرے ہوئے ہیں ، جبکہ ہماری اُمِّیدَیں سالہا سال کی ہیں ، ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کل کا سورج بھی دیکھنا ہے یا نہیں مگر پلاننگ ہمارے پاس 100 سال کی ہے ، خواب ہم نے لمبے لمبے دیکھ رکھے ہیں۔ آہ! نہ جانے یہ خواب پُورے بھی ہو پائیں گے یا نہیں ، پھر اگر پُورے ہو بھی گئے ، تب بھی موت تو بہرحال آنی ہی آنی ہے ، قَبْر میں تو اُترنا ہی اُترنا ہے ، روزِ قِیامت بارگاہِ اِلٰہی میں پیشی تو ہونی ہی ہونی ہے...!! مگرافسوس!قَبْر کی ، قِیامت کی ہمارے پاس کوئی پلاننگ نہیں ہے۔
ایک مرتبہ کسی عقلمند شخص نے اپنے ایک دوست کو خط لکھا اور بڑی سبق آموز نصیحت