Book Name:Maut Ka Akhri Qasid

ہیں ، کیا ہم ان بیماریوں سے عِبْرت لیتے ہیں ؟ شاید نہیں لیتے۔ بُخار ہو ، کوئی مرض لگ جائے تو چاہئے تو یہ کہ ہم عِبْرت لیں ، موت کو یاد کریں ، اس بیماری کو زِندگی کی آخری بیماری سمجھ کر گُنَاہوں سے پکی سچی  توبہ کریں اور نیکیوں میں لگ جائیں مگر ہمارا حال اُلٹا ہے ، کتنے لوگ ہیں جو معمولی سردَرْد  ( Minor Headache ) یا بُخار وغیرہ کی وجہ سے نمازِ باجماعت کی سَعَادت سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ کتنے ایسے نادان بھی ہوں گے جو بیماری کو بہانہ بنا کر نمازیں ہی قضا کر ڈالتے ہوں گے۔

آہ ! بیماری تو موت کا قاصِد ہے ، یہ آئی تھی تاکہ ہم خوابِ غفلت سے جا گ جائیں مگر ہم مزید غفلت  ( Heedlessness ) کا شکار ہو جاتے ہیں۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب !                                                صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

مومن اور منافق کا فرق

اللہ پاک کے رسول ، رسولِ مقبول صَلَّی اللہ علیہ وَآلہٖ و َسَلَّم نے فرمایا : مومِن  جب بیمار ہو پھر اچھا ہو جائے ، اس کی بیماری سابقہ گناہوں سے کفّارہ ہو جاتی ہے اور آیندہ کے لئے نصیحت جبکہ منافِق جب بیمار ہوا پھر اچھا ہوا ، اس کی مثال اونٹ کی ہے کہ مالک نے اسے باندھا پھر کھول دیا تو نہ اسے یہ معلوم کہ کیوں باندھا ، نہ یہ کہ کیوں کھولا ! ( [1] )     

مشہور مفسر قرآن ، حکیمُ الْاُمَّت ، حضر  ت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : مومن بیماری میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ یہ بیماری میرے کسی گناہ کی وجہ سے آئی اور شاید یہ آخِری بیماری ہو جس کے بعد موت ہی آئے ، اِس لئے اسے شِفا کے ساتھ مغفِرت بھی نصیب ہوتی ہے۔  ( جبکہ )


 

 



[1]... ابوداود ،کتاب :الجنائز،باب:الامراض المکفرۃ للذنوب،صفحہ:499،حدیث:3089 ملخّصًا ۔